قوانین اپنے سارے حقوق لے کر اپنے حدود کے آخری بالکل آخری نقطہ پر پہنچ کر ختم ہو چکے تھے۔
یقینا وہی وقت آگیا تھا اور اب نہ آتا تو کب آتا کہ واقعات کے دوسرے رخ کا آغاز ہو؟ پس وہی جس سے ہر چیز الگ کی گئی ، کائنات کا ہر ذرہ جس سے ٹکرایا اور پوری شدت سے ٹکرایا، اتنی شدت سے ٹکرایا کہ صبرو سکون کے پہاڑ سب سے بڑے پہاڑ میں بھی جنبش پیدا ہوئی، انتظار کرو کہ اب اسی کے ساتھ ہر چیز لپٹے، جس سے بھاگے تھے اسی کی طرف سب دوڑیں، جس سے جدا ہوئے اسی سے آکر ملیں ، جس سے سب ٹوٹے اسی سے اب سب جٹیں، جس سے سب پھٹے اسی سے سب چمٹیں، جنہوں نے دردرایا وہی اب اس کو پکاریں اور بے کسی کے ساتھ پکاریں، جس سے سب بھنچے تھے اب اسی کی طرف، ہاں! اسی کی طرف سب کھنچیں، پوری طاقت کے ساتھ کھنچیں، زمین کھنچے، آسمان کھنچے، فلک کھنچے، ملک کھنچیں، جن کھنچیں، انس کھنچے الغرض جو چیزیں کھنچ سکتی ہیں سب کھنچیں اور دیکھو کیا یہی نہیں ہو رہا ہے ؟شاعری نہیں واقعہ ہو رہا ہے، میں نہیں امام بخاری کہہ رہے ہیں۔
جبرائیل امین ؑکا ظہورطائف کی راہ میں
جو زمین پر چھوڑ ا گیا تھا اور ہر طرف سے چھوڑا گیا تھااسی کے مبارک قدموں سے سب کو جوڑنے کے لیے ملأ اعلیٰ 1 میں جنبش ہوتی ہے۔ سلسلۂ ملکوت کے ارتقائی نقاط کا آخری نقطہ الجبرئیل الامین کو دکھایا گیا کہ وہ پکار رہے ہیں:
’’سن لیا،اللہ نے سن لیا، آپ کے لوگوں نے جو کچھ آپ کو کہا۔‘‘
پھراسی سے جس کو سب نے لوٹا یا تھا خطاب کیا گیا:
’’اور جنہوں نے آپ کا رد کیا اور پھینکا وہ بھی اللہ سے غائب نہ تھے۔‘‘
اس کے بعد جو ہلکا کیا گیا تھا اور جو اپنی سبکی کے دکھ سے چندمنٹ پہلے کراہاتھا ھواني علی الناس2 کے ساتھ رویا تھا، دیکھو کہ اس کو وزن بخشا جاتا ہے۔ کیا پتھر کے باٹوں کے برابر کیا گیا؟ پہاڑوں سے تولا گیا؟ ہمالیہ،ارال ، البرز، آلپس کے مساوی ٹھہرایا گیا؟ عمل کا صحیح ردِ عمل کیا ہوتا اگر اسی پر بس کیا جاتا جو سب پر ہلکا تھا؟ جب تک سب پر بھاری نہ کیا جاتاکیسے کہا جاتا ہے کہ عمل کا ردِ عمل ہو گیا؟
جبرئیلِ امین نے عرض کیا:
قَدْ بُعِثَ إِلَیْکَ مَلَکُ الْجِبَالِ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کو نہیں بلکہ پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے۔
جس سے سب لیا گیا تھااب اس کو سب دیا جاتا ہے، اور کس ترتیب سے دیا جا تا ہے ، غیب میں بھی ملأ ادنیٰ 1 سے پہلے ملأ اعلیٰ