اسلامی جہاد کی ترتیب
اُف! اگروہ خون بہانا چاہتا تو پھر ہزاروں کے خون کو صرف ایک کے خون سے کیوں بچاتا؟ قطرہ بہا کر سمند کو کیوں باندھتا؟ یہی یہود جن کا خون ہر زمانہ اور ہر ملک میں تقریباً ہر صدی میں ارزاں رہا ہے اور اب تک ہے1 جب خون کے مستحق ہو چکے تھے اور ہر اعتبار سے ہوچکے تھے، لیکن ان کے ہزاروں کے خون کو صرف کعب بن اشرف اور رافع بن حقیق دوہی آدمیوں کے خون سے کیوں محفوظ کر دیا گیا؟ بہت بڑا خیر وہ شر ہے جس کے ذریعہ سے کسی عظیم و جلیل شرکا سدِباب ہوتا ہے۔ قصاص میںزندگی ہے آخر اس قانون میں اور کیا ہے؟ بلاشبہ ان دونوں کی موت میں ان تمام یہودیوں کی زندگی کی ضمانت تھی جو اس کے بعد زندہ رہے، پھلے پھولے، ورنہ جو منصوبہ ان دونوں نے پکایا تھا 2اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ عرب سے یہودیوں کا اسی وقت نام و نشان جاتا رہتا جیسا کہ ہمیشہ اسی قسم کے بد باطن یہودیوں نے اپنی قوم پر ہر ملک میں ہر زمانہ میں زندگی تلخ کی ہے، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ بنی قریظہ کی چھوٹی جماعت اگرچہ ان ہی کی شریعت، ان ہی کے حکم سے مٹائی گئی، لیکن اسی کے ساتھ کیا اس چھوٹی جماعت کی موت میں عرب کے سارے یہودیوں کی زندگی مستور نہ تھی؟ سنگ دل اورظالم ہے وہ جراح جس نے ایک انگلی کے لیے پورے جسم کو سڑنے دیا۔
ازواجِ مطہرات
آخر میں ان تمام تجربات کے سلسلہ میں نادر ترین تجربہ یہ ہے کہ یہی دس سال کا زمانہ ہے، اس کے بعد بھی چند سال گزرچکے ہیں اور اب وہی جو عرب کے لیے بھی تھا عجم کے لیے بھی تھا اور عورتوں کے لیے بھی تھا مردوں کے لیے بھی تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میںارادہ فرمایا جاتا ہے کہ جس طرح مردوں میں قدوسیوں کی یہ آخری جماعت پیدا کی گئی ہے سارے جہان کی عورتوں کے لیے قیامت تک نسلِ انسانی میں جو عورتیں پیدا ہونے والی ہیں ان سب کے لیے ان کی تعلیم کے لیے، تربیت کے لیے، ان کے نمونہ کے لئے، عورتوں کی بھی ایک جماعت تیار کی جائے۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے تھا اور اس کی کون سی بات قدرتی نہ تھی کہ جہاں سے دنیا کے اس عالم گیر نقشے اور حیاتِ انسانی کے کامل دستور العمل کا جھنڈا اٹھایا جاتا ہے۔
مدینہ میں دنیا کے مذاہب کا اکھاڑہ
وہ نہ لندن ہے نہ پیرس حتی کہ ممبئی بھی نہیں اور کلکتہ بھی نہیں،بلکہ سوچو تو بیابان کی اس کوردہ آبادی کی تمدنی و عمرانی لحاظ سے وہ حیثیت بھی نہیں جو ہندوستان کے معمولی اضلاعی شہروں اور قصبوں کی ہے، لیکن دنیا کے اسی دور افتادہ ویران ریگستان نخلستان میں حیرت ہے کہ سارے جہان کے مذاہب و ادیان اس لیے اس کے آگے پیش ہو جاتے ہیں کہ تردید و