دور ہونے والوں کو قریب کرنے کے لیے کچھ دیر ہوئی تو وہ دیر نہیں ہے۔ بہر حال بات یہ ہو رہی تھی کہ جو ایک طرف سے اگر دبا دیا گیا تو اچنبھا کیوں ہے کہ وہ دوسری سمت میں دور اور اتنی دور کیوں چلا گیا؟ آخر قدرتی طور پر یہ نہ ہوتا توہوتا کیا؟ اور اسی کا نتیجہ تو یہ ہوا کہ جن کو بار بار جاننے کے لیے اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے کہا جاتا تھا بظاہر ان کی تکذیب میںتیزی پیدا ہوئی، لیکن بہ باطن ان کی تفتیش میں اس دعویٰ نے اور تندہی پیدا کر دی، اور اب امتحانی راہوں میں وہ ایسی باتیں سوچنے لگے جن کے بعد پھر کچھ نہیں سوچا جاتا۔
جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات
وہ ادھر اپنے آخری منصوبے پکارہے تھے کہ وقتوں کے ساتھ اس بندھی ہوئی دنیا میں اُن دو آدمیوں کا وقت ختم ہو گیا۔ جو جانچا جارہا تھا اس کے لیے واقعہ کے اعتبار سے کچھ نہ ہوں، لیکن عام بشری قانون کی رو سے ان کو بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔ شکی شک کرتے تھے کہ ہلنے کے وقت یہی دونوں تھام لیتے ہیں، ٹوٹنے کے وقت بھی یہ دونوں ڈھارس باندھ دیتے ہیں۔الغرض جناب ابو طالب بھی چل بسے اور سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون، دنیا کی ایمان والیوں کی پیشوا (ؓ) نے اپنا کا م پورا کر کے چھوڑ دیا، امتحان کے میدان میں تنہا چھوڑ دیا، تاکہ تسلی کے الزام کا یہ شوشہ بھی کٹ جائے، مٹ جائے، اور وہ کٹ گیا، مٹ گیا، لیکن امتحان دینے والا امتحان کے میدان میں اسی طرح ڈٹا ہوا تھا اور ان تمام حالات کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا جو اس پر گزر رہے تھے، گزارے جا رہے تھے۔
لیکن کب تک حبشہ والے حبشہ میں تھے، دنیا والے آخرت میں؟ مکہ والوں کے پاس امتحانی مدت کے دس سال سے زیادہ گزر چکے تھے۔ جانچ کی کون سی شکل تھی جو باقی رہ گئی تھی بجز اس ایک منصوبے کے جو آخری منصوبہ تھا؟
طائف کی زندگی
یہ نہیں سنتے شاید دوسرے سنیں۔ یہاں جی نہیں لگتا شاید وہاں لگے۔کچھ یہی سوچ کر زیادہ دور نہیں بلکہ امرائے مکہ کے گرمائی اسٹیشن طائف کا خیال آیا۔ زید بن حارثہؓآزاد غلام کے سوا ساتھ بھی کوئی نہ تھا۔ حجاز کی سب سے بڑی دولت مند عورت خودبھی جا چکی تھیں اور جو کچھ ان کا تھا ان ہی راہوں میں جن پر وہ صرف ہو رہا تھاصرف ہوچکا تھا۔ سب کچھ جا چکا تھا، اتنا بھی باقی نہ تھا کہ طائف تک کے لیے کوئی سواری ہی کرایہ پر کر لی جائے۔ معمولی دو چپلوں کے سوا پائے مبارک کے لیے راستہ کو آسان کرنے والی کوئی چیز نہ تھی، اسی حال میں پہنچتے پہنچتے ہی اونچی دکانوں والوں کے پاس آئے۔ جس لیے آئے تھے اس کا اظہار کیا گیا۔ پھر تمام تجربوں میں یہ آخری تجربہ تھا کہ جس کسی کے پاس گئے اس نے پلٹا یا، جس سے بولے اس نے جھڑکا، حالاںکہ کم از کم اجنبی لوگوں کا سلوک ابتدء ًا آپﷺ کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا اور نہ رود آواز