چھوٹے کے ہاتھوں قتل ہوا۔4 قریش کے ستر سو رما مارے گئے اور یوں قیدار کی حشمت خاک میں مل گئی۔
وہی عرب جو ایک کمان سے تیر بن کر اس کونے کے پتھر پر گرے تھے1 جیسا کہ کہا گیا تھا ’’جو اس پر گرتا ہے چور چور ہو جاتا ہے‘‘ چور چور ہو کر اس طرح بدلے کہ جو دشمن تھے وہ دوست ہو گئے، جن پر تلوار چلائی گئی وہ نہیں،بلکہ جنہوں نے تلوار چلائی انہوں نے مسلمان ہوکر اُن جھوٹوں کو جھٹلایا جنہوں نے بازاروں میں پھیلا یا تھا کہ جو کچھ پھیلایاگیا تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ مکہ میں جن سے چھیناگیاتھا سب کچھ چھیناگیاتھا۔ پانی چھیناگیا، کھانا چھینا گیا، گھر چھیناگیا، در چھیناگیااور آخر میں جینے کا حق بھی چاہاگیا تھا کہ چھینا جائے اور کتنوں سے چھینا گیا۔ دہکتی ہوئی آگ، چمکتی ہوئی تلواروں ، کھنچی ہوئی کمانوں کے نیچے سے بھاگتے ہوئے، پھر چمکتی ہوئی تلواروں اور کھنچی ہوئی کمانوں، تنے ہوئے نیزوں کے ساتھ فتح کا پھر یرا اڑاتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتے ہیں، لیکن لیتے ہوئے نہیں دیتے ہوئے، اکڑے ہوئے نہیں جھکے ہوئے، بدلہ چکاتے ہوئے نہیں حط و عفو کرتے ہوئے۔
{وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ}2
شہر کے دروازے میں سرجھکائے ہوئے اوریعنی گناہوں اور قصوروں کو جھاڑتے ہوئے، معاف کرتے ہوئے داخل ہونا
کی تعمیل کرتے ہوئے،رحم وکرم،صفح و اعراض ، مغفرت ودرگزر، امن و امان کے پھول برساتے ہوئے۔
اَلْیَوْمُ یَوْمُ بِرٍّ وَ وَفَائٍ، اَلْیَوْمُ أنْتُمُ الطُّلَقَائُ۔
آج صلہ رحمی اور وفا کرنے کا دن ہے، آج تم لوگ آزاد کیے گئے۔
کے موتی نچھاور کرتے ہوئے زمین پر انسانوں کے لیے جو پہلا گھر مخلوق کی نہیںبلکہ خالق کی صرف خالق کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اس میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، اَلْحَمْدُ اللّٰہِ وَحْدَہٗ، نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ ھَزَمَ الْأحْزَابَ وَحْدَہٗکہتے ہوئے سربسجود ہو گئے۔ ابراہیم ( ؑ) کا بیتِ ایل پتھر کی کھودی ہوئی مورتیوں کی گندگی سے پاک ہو گیا۔
عہدِ نبوت کے جہاد میں شہدا اور مقتولوں کی اٹھارہ سو تعداد
اور حیرت ہے کہ بکھرا ہوا وحشی عرب جس میں وثنی، بت پرست، یہودی، عیسائی، صائبی، عقل پرست سبھی ہیں، ان مختلف اقوام و قبائل کے باہمی انتشار، جنگ و جدال کو ختم کر کے ایک پرامن آئینی نظامِ سلطنت کے ساتھ وابستہ کرنے میں جھوٹوں نے جس قدر بھی جھوٹ چاہا پھیلا دیا، لیکن واقعہ اس قدر اور اسی قدر ہے کہ دس لاکھ مربع میل کی طویل و عریض سرزمین کا پایۂ تخت جس وقت کسانوں کا وہی قصبہ ہو گیا تو دس سال کی اس لمبی اور دراز مدت میں وثنیوں (عربی ہندوئوں)، یہودیوں،عیسائیوں، مسلمانوں سب میں سے امن و امان کی اس جدو جہد میں طرفین کے جتنے آدمی کام آئے ان کی تعداد کروڑ، لاکھ، بلکہ دو ہزار ، چار ہزار بھی نہیں، اتنی بھی نہیں جتنے نیویارک کی سڑکوں یا لندن کی شاہراہوں پر