’’ایسوں کو کون دے سکتا ہے؟ ان کو کیسے حوالہ کیا جا سکتا ہے؟‘‘
جو لوہا گرم ہو ا تھا جب اسکی گرمی کا یہ حال ہے، تو جس نے اس کو گرم کیا تھا اس کی حرارت کو کون برداشت کر سکتا تھا، مگر وہی جنہوں نے چھوا نہیں تھا یا جو چھونے سے ہچکچارہے تھے؟ ورنہ جنہوں نے چھولیا تھا دیکھ رہے ہو کہ یہ آگ کسی طاقت سے بجھ رہی ہے؟ غریبوں سے، امیروں سے،شاہی قوت کے فوارے سے بجھانے کی کوشش کی گئی، لیکن بجائے بجھنے کے وہ اور بھڑکی، بجائے دبنے کے وہ اور بھبکی۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ جاننے نہ جاننے، چھونے نہ چھونے، دیکھنے نہ دیکھنے کا سب کو اختیار ہے، لیکن جس نے جان لیا، جس نے چھولیا، جس نے دیکھ لیا، نہ ماننا اس کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ حقیقت کی گرفت سے اس کے بعد اپنے کو صرف وہی آزادی دکھا سکتا ہے جو گرفتار ہوتا ہے، لیکن کسی باطنی شرارت کی وجہ سے دعویٰ کرتا ہے کہ میں آزاد ہوں۔ یہ ہٹ دھرموں کا گروہ ہے، یہ ڈھٹائی والے معاندین و جامدین کی جماعت ہے، جو جھٹلاتی ہے اور کسی باطنی خبث کی وجہ سے جان بوجھ کر جھٹلاتی ہے، مگر یہ لوگ وہ نہیں تھے جوجاننے سے جان چرا رہے تھے یا د یکھنے سے آنکھیں میچ رہے تھے، بلکہ انہوں نے جاننے کے اختیار کو استعمال کیاپھر ماننے سے کیسے بازر ہ سکتے تھے؟ جس نے سورج اور اس کی شعاعوں کو دیکھ لیا کیا اپنی آنکھ سے ان کے احساس کو پَوچھ کر محو کر سکتا ہے؟
ذاتِ مبارک ﷺ کے ساتھ ایذا رسانیوں کا آغاز
بہر حال یہ تو ان کی جانچ تھی جو گرمائے گئے تھے، لیکن ان تمام گرمیوں کا جو حقیقی منبع اور ان کا گرمانے والا تھا اب تک اس کے صرف ایجابی امتحانات تک بات پہنچی تھی۔ اس کو تو انہوں نے اس وقت تک مہلت دے کر جانچا تھا جس طرح اس کے ساتھیوں کی جان لے کر، ان کی عزت و آبرو لے کر،ان کی جسمانی راحت و آرام کو لے کر، ان کے جینے کے حق کو چھین کر انہوں نے آزمایا تھا۔ صدق وامانت کے اس حقیقی سرچشمہ کے ساتھ آزمانے کی اس راہ کو اختیار کرنے سے کچھ جھجک رہے تھے جس کا امتحان تھا۔ اگرچہ خود اس کو دیدہ اور مرئی قوتوں سے انکار تھا، لیکن ان آزمانے والوں کی نگاہوں، تنگ نگاہوں میں تو بھروسہ صرف وہی تھا جو سامنے ہو۔ بہرحال اس بھروسہ کی تعداد ہی کتنی سی تھی؟ لیکن جتنی بھی تھی جب اس میں سے اسّی پچاسی آدمی نکل گئے تو ظاہر ہے کہ آزمانے والوں کے لیے راستہ بہت کچھ صاف ہو چکا تھا۔ یہ سچ ہے کہ جمہوریہ قریش کے بین الفرقی یا بین القبائلی قوانین کی رو سے بھی اس پر ہاتھ دراز کر نا آسان نہ تھا جو اُن غلاموں، پردیسیوں، بے کَسوں کی طرح لاوارث نہ تھا جن کے ساتھ اِن ظالموں نے جور و ستم کی چاند ماری ٹھنڈے سانسوں کے ساتھ کھیلی تھی۔ وہ بنی ہاشم سے بھی دبتے تھے اور ان کے حلیفوں سے بھی شرماتے تھے جن کے ساتھ ان کے نشانہ کا خاندانی تعلق تھا، تاہم زیادہ دن تک وہ صبر نہ کر سکے۔