Deobandi Books

النبی الخاتم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

35 - 81
’’ایسوں کو کون دے سکتا ہے؟ ان کو کیسے حوالہ کیا جا سکتا ہے؟‘‘ 
جو لوہا گرم ہو ا تھا جب اسکی گرمی کا یہ حال ہے، تو جس نے اس کو گرم کیا تھا اس کی حرارت کو کون برداشت کر سکتا تھا، مگر وہی جنہوں نے چھوا نہیں تھا یا جو چھونے سے ہچکچارہے تھے؟ ورنہ جنہوں نے چھولیا تھا دیکھ رہے ہو کہ یہ آگ کسی طاقت سے بجھ رہی ہے؟ غریبوں سے، امیروں سے،شاہی قوت کے فوارے سے بجھانے کی کوشش کی گئی، لیکن بجائے بجھنے کے وہ اور بھڑکی، بجائے دبنے کے وہ اور بھبکی۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ جاننے نہ جاننے، چھونے نہ چھونے، دیکھنے نہ دیکھنے کا سب کو اختیار ہے، لیکن جس نے جان لیا، جس نے چھولیا، جس نے دیکھ لیا، نہ ماننا اس کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ حقیقت کی گرفت سے اس کے بعد اپنے کو صرف وہی آزادی دکھا سکتا ہے جو گرفتار ہوتا ہے، لیکن کسی باطنی شرارت کی وجہ سے دعویٰ کرتا ہے کہ میں آزاد ہوں۔ یہ ہٹ دھرموں کا گروہ ہے، یہ ڈھٹائی والے معاندین و جامدین کی جماعت ہے، جو جھٹلاتی ہے اور کسی باطنی خبث کی وجہ سے جان بوجھ کر جھٹلاتی ہے، مگر یہ لوگ وہ نہیں تھے جوجاننے سے جان چرا رہے تھے یا د یکھنے سے آنکھیں میچ رہے تھے، بلکہ انہوں نے جاننے کے اختیار کو استعمال کیاپھر ماننے سے کیسے بازر ہ سکتے تھے؟ جس نے سورج اور اس کی شعاعوں کو دیکھ لیا کیا اپنی آنکھ سے ان کے احساس کو پَوچھ کر محو کر سکتا ہے؟
ذاتِ مبارک ﷺ کے ساتھ ایذا رسانیوں کا آغاز
 بہر حال یہ تو ان کی جانچ تھی جو گرمائے گئے تھے، لیکن ان تمام گرمیوں کا جو حقیقی منبع اور ان کا گرمانے والا تھا اب تک اس کے صرف ایجابی امتحانات تک بات پہنچی تھی۔ اس کو تو انہوں نے اس وقت تک مہلت دے کر جانچا تھا جس طرح اس کے ساتھیوں کی جان لے کر، ان کی عزت و آبرو لے کر،ان کی جسمانی راحت و آرام کو لے کر، ان کے جینے کے حق کو چھین کر انہوں نے آزمایا تھا۔ صدق وامانت کے اس حقیقی سرچشمہ کے ساتھ آزمانے کی اس راہ کو اختیار کرنے سے کچھ جھجک رہے تھے جس کا امتحان تھا۔ اگرچہ خود اس کو دیدہ اور مرئی قوتوں سے انکار تھا، لیکن ان آزمانے والوں کی نگاہوں، تنگ نگاہوں میں تو بھروسہ صرف وہی تھا جو سامنے ہو۔ بہرحال اس بھروسہ کی تعداد ہی کتنی سی تھی؟ لیکن جتنی بھی تھی جب اس میں سے اسّی پچاسی آدمی نکل گئے تو ظاہر ہے کہ آزمانے والوں کے لیے راستہ بہت کچھ صاف ہو چکا تھا۔ یہ سچ ہے کہ جمہوریہ قریش کے بین الفرقی یا بین القبائلی قوانین کی رو سے بھی اس پر ہاتھ دراز کر نا آسان نہ تھا جو اُن غلاموں، پردیسیوں، بے کَسوں کی طرح لاوارث نہ تھا جن کے ساتھ اِن ظالموں نے جور و ستم کی چاند ماری ٹھنڈے سانسوں کے ساتھ کھیلی تھی۔ وہ بنی ہاشم سے بھی دبتے تھے اور ان کے حلیفوں سے بھی شرماتے تھے جن کے ساتھ ان کے نشانہ کا خاندانی تعلق تھا، تاہم زیادہ دن تک وہ صبر نہ کر سکے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تعارف 6 1
3 دیباچہ 10 2
4 مکی زندگی 10 1
5 والدین کی وفات 22 4
6 عبدالمطلب کی کفالت اور ان کی وفات 22 4
7 ابو طالب کی کفالت 22 4
8 دائی حلیمہ سعدیہ 23 4
9 ملک ِعرب 23 4
10 قریش اور قریش کی حالت 24 4
11 ایامِ طفولیت اورشغلِ گلہ بانی 25 4
12 حجر اَسودکا جھگڑا 26 4
13 نکاح 26 4
14 خلوت پسندی 28 4
15 ابتدائے وحی 30 4
16 {اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِٰلہَ اِلَّا اَنَا} 30 4
17 تعذیب ِصحابہ ؓ 32 4
18 ہجرتِ حبشہ 33 4
19 نجاشی کے دربار میں جعفر طیارؓ کی تاریخی تقریر 34 4
20 ذاتِ مبارک ﷺ کے ساتھ ایذا رسانیوں کا آغاز 35 4
21 ابو طالب کو توڑنے کی کوشش 36 4
22 شعب ِابی طالب 37 4
23 شعبِ ابی طالب کے مصائب کی قیمت واقعۂ معراج 37 4
24 واقعۂ معراج کے متعلق چند ارشادات 38 4
25 جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات 40 4
26 طائف کی زندگی 40 1
27 طائف سے واپسی 42 26
28 جبرائیل امین ؑکا ظہورطائف کی راہ میں 44 26
29 جنوں سے ملاقات اوربیعت 47 26
30 مدینہ والوں سے پہلی ملاقات ٓ 48 26
31 انصارِ مدینہ کی پہلی ملاقات 49 26
32 دارالندوہ کا آخری فیصلہ اور ہجرت 53 26
33 سفرِ ہجرت کا آغاز اور اس کے واقعات 53 26
34 سفرِ ہجرت میں سراقہ سے گفتگو 55 26
35 مدنی زندگی 57 1
36 بنائے مسجد و صفہ 58 35
37 تحویلِ قبلہ کا راز 58 35
38 مؤاخاۃ اور اس کا فائدہ 59 35
39 اذان کی ابتدا 60 35
40 تبلیغِ عام کا آغاز 60 35
41 مشکلاتِ راہ 61 35
42 غزوئہ بدر 61 35
43 عہدِ نبوت کے جہاد میں شہدا اور مقتولوں کی اٹھارہ سو تعداد 62 35
44 بیرونِ عرب میںتبلیغ کا کام 64 35
45 اسلامی جہاد کی ترتیب 67 35
46 ازواجِ مطہرات 67 35
47 مدینہ میں دنیا کے مذاہب کا اکھاڑہ 67 35
48 حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیثیت 70 35
49 ختمِ نبوت 74 35
Flag Counter