Deobandi Books

النبی الخاتم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

24 - 81
جو ہے اپنا، نظر نہیں آتا
	                                          (حضرت امجد)
ان ملکوں میں جو کچھ نظر آتا ہے ان سرابی مغالطوں کے چکروں میں گھوم کر کتنے پیاسے پیاس ہی کی حالت میں یہ بڑبڑاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے تہ نشین ہو گئے کہ جو ان کی ایک انچی آنکھوں میں نہیں ہے وہ واقع بھی نہیں ہے۔ حالاںکہ اگر محسوسات کی نظر فریبیوں کے پھندوں سے ان کی عقل کی گردنیں آزاد ہوتی تو وہ اسے اپنی آنکھوں میں بھی اسی طرح پاتے جس طرح وہ ان کے باہر پایا جاتا ہے۔ بہر حال جس دیس میں کچھ نہیں تھا جب اس نے خود اپنی ذات سے اس کی گواہی ادا کی کہ وہاں بھی وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو ان دیسوں میں کسی کو نہیں ملا اور نہ کبھی مل سکتا ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں کیاکچھ نہیں ہے۔ کیا اس عینی شہادت کے بعد بھی کوئی کسی دیس کے بند ھو یا کسی وطن کے عبد ہونے کا دھوکہ کھا سکتا ہے؟
قریش اور قریش کی حالت
اور جس طرح اس نے خاک اور دھول کے بوجھ سے انسانیت کے سر کو ہلکا کیا، کیا دعویٰ پیش کرنے سے پہلے قدرت نے خود اس کو، اس کے مبارک وجود کو اس کی دلیل نہیں بنایا کہ قوم اور نیشن کے دیوتائوں کے آگے بھجن گانے والے اس کے قدموں پر اس لیے اپنی اور اپنے بچوں کی خون کی، یہ سمجھ کر بھینٹ چڑھانے والے کہ قوم کے وجود میں افراد کی ضمانت مستور ہے، یہ لوگ قومی اور انفرادی بقا ہی نہیں بلکہ سرے سے بقا ہی کے راز سے جاہل ہیں۔ 
دیکھو! جس طرح وہ ایسے ملک میں پیدا ہوا تھا جس میں کچھ نہیں تھا، اسی طرح یہ قدرت ہی کی طرف کی بات تھی کہ جس قوم میں وہ پیدا ہوا اس کے پاس بھی کچھ نہیں تھا۔ وہ اس کا دماغ، اس کا دل، اس کی طبیعت اپنی قوم سے کیا لیتے جب کہ خود ان ہی کے پاس کچھ نہ تھا۔ اور اگر کچھ تھا بھی تو جو باہر کا حال وہی ان کے اندر کی بھی کیفیت تھی۔ بلکہ شاید ان کے دل ان کے پہاڑوں سے زیادہ سخت، ان کے دماغ ان کے میدانوں سے زیادہ چٹیل تھے۔ ان میں، ان کی صحبتوں میں رہنے والوں کے اندر سنوار سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا تھا، ابھر نے سے زیادہ ان میں پلنے والے ٹھٹھرتے تھے۔
تاہم وہ آدمی ہی تھے اور مکہ بادیہ نہیں ایک شہر تھا۔ مانا کہ اس میںمدرسہ نہ تھا، کالج نہ تھا، یونیورسٹی نہ تھی، سوسائٹی نہ تھی، کلب نہ تھا، لان نہ تھا، صنعتی کارخانے نہ تھے، علمی معہد، کوئی باضابطہ سیاسی ادارہ نہ تھا، لیکن پھر بھی وہ شہر تھا، اس میں شہریت کے کچھ لوازم تھے۔ ایک معبد تھا جس کی زیارت کے لیے اطراف واکناف کے مسافر وہاں آتے تھے۔ شمالی و جنوبی کاروانی راستوں کی شاہراہ پر وہ واقع تھا۔ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تعارف 6 1
3 دیباچہ 10 2
4 مکی زندگی 10 1
5 والدین کی وفات 22 4
6 عبدالمطلب کی کفالت اور ان کی وفات 22 4
7 ابو طالب کی کفالت 22 4
8 دائی حلیمہ سعدیہ 23 4
9 ملک ِعرب 23 4
10 قریش اور قریش کی حالت 24 4
11 ایامِ طفولیت اورشغلِ گلہ بانی 25 4
12 حجر اَسودکا جھگڑا 26 4
13 نکاح 26 4
14 خلوت پسندی 28 4
15 ابتدائے وحی 30 4
16 {اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِٰلہَ اِلَّا اَنَا} 30 4
17 تعذیب ِصحابہ ؓ 32 4
18 ہجرتِ حبشہ 33 4
19 نجاشی کے دربار میں جعفر طیارؓ کی تاریخی تقریر 34 4
20 ذاتِ مبارک ﷺ کے ساتھ ایذا رسانیوں کا آغاز 35 4
21 ابو طالب کو توڑنے کی کوشش 36 4
22 شعب ِابی طالب 37 4
23 شعبِ ابی طالب کے مصائب کی قیمت واقعۂ معراج 37 4
24 واقعۂ معراج کے متعلق چند ارشادات 38 4
25 جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات 40 4
26 طائف کی زندگی 40 1
27 طائف سے واپسی 42 26
28 جبرائیل امین ؑکا ظہورطائف کی راہ میں 44 26
29 جنوں سے ملاقات اوربیعت 47 26
30 مدینہ والوں سے پہلی ملاقات ٓ 48 26
31 انصارِ مدینہ کی پہلی ملاقات 49 26
32 دارالندوہ کا آخری فیصلہ اور ہجرت 53 26
33 سفرِ ہجرت کا آغاز اور اس کے واقعات 53 26
34 سفرِ ہجرت میں سراقہ سے گفتگو 55 26
35 مدنی زندگی 57 1
36 بنائے مسجد و صفہ 58 35
37 تحویلِ قبلہ کا راز 58 35
38 مؤاخاۃ اور اس کا فائدہ 59 35
39 اذان کی ابتدا 60 35
40 تبلیغِ عام کا آغاز 60 35
41 مشکلاتِ راہ 61 35
42 غزوئہ بدر 61 35
43 عہدِ نبوت کے جہاد میں شہدا اور مقتولوں کی اٹھارہ سو تعداد 62 35
44 بیرونِ عرب میںتبلیغ کا کام 64 35
45 اسلامی جہاد کی ترتیب 67 35
46 ازواجِ مطہرات 67 35
47 مدینہ میں دنیا کے مذاہب کا اکھاڑہ 67 35
48 حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیثیت 70 35
49 ختمِ نبوت 74 35
Flag Counter