ایامِ طفولیت اورشغلِ گلہ بانی
شک کی اس ٹٹی کو بھی توڑنے کے لیے غالباً یہ غیبی سامان تھا کہ جب تک ان سے جدا آپ کچھ لے سکتے تھے، اس عمر تک خانگی حالا ت کی مجبوریوں نے شہر اور شہریت سے جدا کر کے آپ کو جنگل پہنچا دیا۔ بجائے آدمیوں کے چراگاہ کے چرندے آپ کے ساتھی ٹھہرائے گئے۔ مشغلۂ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے تقریباً بائیس تئیس سال کی عمر تک آپ کے اوقات کا یہی نظام تھا کہ صبح ہوئی گھر گھر سے بکریوں کے مندوں ، اونٹوں کے گلوں کو ساتھ لیے بہت دور صحرا میں چلے جاتے، شام ہوئی سب کے گھروں کے مویشی پہنچا دیے گئے، گھر پہنچے جو کچھ دیا گیا کھا لیا اور تھکے ہوئے گلہ بانوں کی طرح بنی نوع انسان کا یہ سب سے بڑا گلہ بان سو جاتا تھا۔ شہر میںکیا ہوتا ہے؟ کون ہوتا ہے؟ کون جاتا ہے؟ شاید ہی اس کی خبر کبھی ملتی ہو۔ اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ گلہ بانی کی اس پوری زندگی میں صرف ایک دفعہ جیسا کہ عمر کا تقاضا ہے کسی بارات کے تماشا دیکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ شاید اس شوق میں چراگاہ سے سویرے واپس آگئے۔ شام ہوئی ضروریات سے فارغ ہو کر صاحب تقریب کے مکان پر پہنچے ۔ بارات کی دھوم دھام ابھی شروع بھی نہیں ہوئی کہ چراگاہ تک تگ و دو کی ماندنے تھپکیاں دے کر سلایا۔ آنکھ کھلی تو تماشے ختم ہو چکے تھے اور مشرق کا رقاص اُفق عالم پر ناچتا ہوا اپنا تماشا پیش کر رہا تھا، دھوپ نکل چکی تھی۔
یہ حال تو اس وقت کا ہے جب اپنی قوم سے آپ کچھ لے سکتے تھے، لیکن جب قدرت نے اس کو جس کے دماغ نے، جس کے قلب نے، جس کی عقل نے، جس کی طبیعت نے، محسوس قوتوں میں سے کسی سے قطعاًکچھ نہیں لیا تھا، اسی کو ساری دنیا میں ان سب چیزوں کو باٹنے پر مامور کیا جو آج تک کسی کو کسی سے نہ ملا تھا اور نہ آیندہ مل سکتا ہے جیسا کہ مسیح ؑ نے کہا تھا:
’’میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر تم برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ فارقلیط (احمد) آ ئے گا تو سچائی کی ساری راہیں بتادے گا۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ فرض کے اس منصب پرقیام کے بعد اس کی قوم کااس کے ساتھ جوسلوک شروع ہوا، ایسی صورت میں ان سے اس کو کیا مل سکتا تھا جب وہ اس کی ہر چیز بلکہ جان تک چھیننے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے تھے؟ پھر جس کو اپنی قوم سے کچھ نہیں ملا، نہ علم نہ عمل ملا کہ اس سے تو وہ خود کورے تھے، لیکن اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے ان میں سے جو قومی حمیت اور خاندانی غیرت کا جاہلانہ جوش تھا، دیکھو تو وہ اس سے محروم کیا گیا، لیکن کیا اس نے علیٰ رئوس الاشہاد خود اپنی ہستی کی شہادت سے یہ ثابت کر کے نہیں دکھایا کہ نہ اس کو ملتا ہے جسے قوم چاہے اور نہ اس کو ملتا ہے جو قوم سے چاہے ، بلکہ جس کا سب کچھ چاہا ہوا ہے جس کسی کو بھی جو ملتا ہے اسی کے چاہنے سے ملتا ہے۔ کون شک کر سکتا ہے کہ اس عویٰ کی سب