افریقہ کے لاکھوں میل کے رقبوں کو ایسے کروڑ ہا کروڑ انسانوں سے بھر دیا کہ گویا ان میں کوئی انکار کرنے والاتھا ہی نہیں۔ فاروقؓ ہی کے پندرہ سالہ عہدِ حکومت تک پہنچتے پہنچتے ایسا ہو گیا جیسا کہ حبقوق نبی نے صدیوں پہلے کہا تھا:
’’آسمان اس کی شوکت سے چھپ گیا اور زمین احمد کی حمد سے بھر گئی۔ وہ کھڑا ہوا اس نے زمین کو لرزا دیا۔ اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا۔ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے، پرانی پہاڑیاں اس کے آگے ریزہ ریزہ ہو گئیں، زمین مدیان1 کے پردے کانپ جاتے تھے۔‘‘
ابتدائے وحی
اب دیکھو خلوت کی اسی زندگی سے وہ ایک بڑے دعویٰ کو لے کر آتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح آتا ہے جیسا کہ سلیمان نبی نے کہا تھا:
’’وہ میرے محبوب کی آواز دیکھ، وہ پہاڑوں پر سے کودتے ، ٹیلوں پر سے پھاندتے آتا ہے۔‘‘ (غزل الغزلات باب ۱)
اور پہاڑ سے اتر کر دنیا کے آگے اس نے حیرت سے بھرے ہوئے اس تجربہ کا اعلان کیا کہ جیسے یسعیاہ نبی نے کہا تھا:
’’ ان پڑھ کو کتاب دی گئی کہ اسے پڑھ اور وہ کہتا ہے کہ میں اَن پڑھ ہوں، پڑھ نہیں سکتا۔‘‘
سمجھنے والوں نے سمجھا یا نہیں سمجھا، مجھے اس سے کیا بحث؟ لیکن بخاری میں ہے حرا کی کھوہ میں اس کے سامنے سب سے پہلے جاء ہ الحق2 کا نظارہ اسی طرح بے نقاب ہواجس طرح پہاڑی کے ہرے بھرے جھاڑ کی شاداب آگ ہے۔
{اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِٰلہَ اِلَّا اَنَا}
ہاں میں ہی اللہ ہوں، کوئی معبود نہیں ہے، لیکن میں ہی۔
کی سرمدی گونج اس طرح گونجی کہ سننے والا نہیں بتا سکتا کہ کدھر سے گونجی، لیکن گونجی اور اسی آگ سے گونجی، حضرت موسیٰ کو یوں ہی محسوس ہوا، اور یہ تو قرآن میں ہے، غیر قرآنی یاداشتوں میں آیا ہے کہ
’’پیپل کے سایہ میں جو مایوس بیٹھا تھا، گیا کا وہی شاکیہ منی یہ کہتا ہوا اُچھلا: پاگیا، پاگیا اب تجھے نہیں کھوئوں گا۔ جی گیا، جی گیا اب کبھی نہیں مروں گا۔‘‘ ( أوکما قال )
خدا ہی جانتا ہے کہ بدھ کیا تھا؟ کون تھا؟ اور اس نے کیا کہا تھا؟ لوگوں نے کیا سنا؟ لیکن بھولے بسر ے افسانوں میں ذکر چلا آتا ہے کہ کچھ اسی قسم کے الفاظ بولا۔
بہرحال حق کے اس فُجائی اور اچانک نمود کے بعد بخاری ہی میں ہے کہ فَجَائَ ہ الْمَلَکُ۔ تب فرشتہ آیا۔ ’’ملک ہی حق تھا اور حق ہی ملک تھا‘‘ جو یہ کہتے ہیں اب ان سے میں یہ کیا کہوں کہ جس نے چکھا اسی نے جانا، ہم نے نہ چکھا اور نہ جان سکتے ہیں۔