گزرچکا، جب ان میں شک کا بخار اٹھا اور اس وقت تک اٹھ رہا ہے تو جو ابھی مکہ ہی میں تھے مدینہ ان کی نگاہوں سے اوجھل تھا، کیوں اچنبھا ہوتا ہے اگر اوہام کی تاریکیوں میں پھنس کر انہوں نے ٹھوکر کھائی اور باوجود جاننے کے تجربات و مشاہدات کی اس تیز روشنی میں پہچاننے کے ماننے سے وہ ہچکچاتے رہے؟ ان کے علم میں بھی ظلم ہی کی ظلمت شریک ہو ئی اور جو چیز سامنے آچکی تھی پھر اس پر پردہ پڑگیا۔
دارالندوہ کا آخری فیصلہ اور ہجرت
حالاںکہ عمل کا ردِ عمل شروع ہو چکا تھا اور اس کا طوفان غیب سے سینہ تانتا ہوا شہادت کے ساحل سے ٹکرارہا تھا، مگر انہوں نے اس کا اندازہ نہیں کیا اور جس طرح اب تک اس سے ٹکرارہے تھے پھر ٹکرا نے پر آمادہ ہوئے۔
منیٰ کے میدان میں تسخیری قوت کا جو مظاہرہ ہوا تھا اس نے اس میں اور ہلچل پید ا کی۔ ان کو اپنی بڑائی کی بربادی کا اندیشہ ہوا۔ اپنے ضمیر کے صادق احساس پر اسی قسم کے اوہام کی پٹی باندھ کر وہ اندھے بنے، اور کونے کے جس پھینکے ہوئے پتھر1 پر اس لیے پہلوں نے تعجب کیا تھا کہ جس پر وہ گرتا ہے وہ بھی چور ہو جاتا ہے اور جو اس پر گرتا ہے وہ بھی چکنا چور ہوجاتا ہے ، سب مل کر آخری دفعہ ٹوٹ کر گرے۔ جمہوریہ قریش کا مشہور اور منحوس ریزولیوشن2 پاس ہو گیا۔
کس قدر عجیب ہے وہی جو ابو طالب کی گھاٹی میں جس کے پانی کو روک سکتے تھے، جس کے کھانے کو روک سکتے تھے، کہ اس وقت ان کو اس کی اجازت تھی کہ وہ رد ِعمل نہیںبلکہ عمل کا زمانہ تھا، لیکن آج دیکھو! ردِ عمل کے زور کو دیکھو! کہ آج وہی کھڑے ہیں، مکہ کے ہر گھر کے سور ما کھڑے ہیں، کھنچی ہوئی تلواریں لیے کھڑے ہیں، مکہ سے میل دو میل کسی ایسی گھاٹی کی ناکہ بندی کے لیے نہیں کھڑے ہیں کہ جس میں پہنچنے کے لیے بیسوں راستے اور درے ہیں، بلکہ ایک مختصر سے گھر کے اندر دروازے پر کھڑے ہیں، لیکن جس کے پانی بلکہ جس کے خادموں کو پانی اور کھانے کو متعدد راہوں والی گھاٹی میں روک سکتے تھے، آج خود اس کو روکنے پر قادر نہ ہوسکے۔ جاگ رہے تھے لیکن سوئے ہوئے تھے، دیکھ رہے تھے لیکن نہیں سوجھتا تھا۔ جس کو خاص سب کچھ دیا جا چکا تھا اس کی جان تو خیر اب اس کے قدم کی خاک بھی اپنے ہاتھوں اپنے سر پر نہیں مل سکتے تھے جب تک وہی نہ مل رہے ۔1
سفرِ ہجرت کا آغاز اور اس کے واقعات
جس کے آگے غیب جھک چکا تھا، شہادت جھک چکی تھی،ملأ اعلیٰ و ادنیٰ جھک چکے تھے، جن جھک چکے تھے، انس جھک چکے تھے، دل ڈھونڈتا ہے کہ ا س کے آگے جمادات بھی جھکیں، نباتات بھی جھکیں، حیوانات بھی جھکیں، درند بھی جھکیں، دوند بھی جھکیں، پرند بھی جھکیں، الغرض جو بھی جھک سکتے ہیں سب جھکیں، اور کیا یہ صرف عقل ہی کا تقاضا ہے جن جن