Deobandi Books

النبی الخاتم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

64 - 81
مقتولوں کا حساب کیا جائے تو ان کی تعداد پانچ چھ سو سے زیادہ اس کل دس سال کی مدت کے اندر سارے ملک عرب میں ان شاء اللہ ثابت نہ ہوگی۔ حالاںکہ مقابلہ میں عرب کے وحشی قبائل ،طاقتور جمہوریتیں اور بعض سلاطین بھی تھے، لیکن جس کو طائف کے بعد سب کچھ دے دیا گیا تھا کیوں سوچا جاتا ہے کہ اس کو یہ کیوںکر ملا؟ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو ا؟ جس کی زندگی کا ہر واقعہ اس کے کلمۂ دعوت و دعویٔ لا الہ الا اللہ کی دلیل ہے آخر ان واقعات میں بھی اس کو کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا؟ الغرض یہ ہیں کل دس سال اور وہ سارے جنگ و جدال جن کے خون کا افسانہ ہزار ہا بو قلموں رنگوں سے رنگین کر کے دنیا کو سنایا جاتا ہے۔
اب دیکھو جہاں انسان، مسجودِ ملائکہ انسان کی جان ایک مچھر اور مکھی سے بھی زیادہ قیمت نہیں رکھتی تھی، اس کی جان تو بڑی چیز ہے اس کے کپڑے کا دھاگہ بھی رات کے اندھیروں میں کوئی نکال نہیں سکتا، امن و امان کا دور دورہ ہے، عالم پر منطبق کرنے کے لیے انسانی زندگی کے جس آئین و دستور کا نقش مدینہ کے پرچم میں گاڑھا گیا تھا، اس کے نیچے چلے آتے ہیں، بے تابانہ چلے آتے ہیں، آدم کے بچے ہرچہار طرف سے چلے آتے ہیں، فوج در فوج چلے آتے ہیں، وفودکا تانتا بندھ جاتا ہے۔1  
پھر کیا مدینہ میں جو پایۂ تخت قائم ہوا وہاں منبر کی جگہ تخت بچھایا گیا؟ وہی منبر ہے، وہی مسجد ہے، وہی جھونپڑے ہیں، وہی چمڑے کا اکہرا گدا ہے۔ نہ حاجب ہے، نہ دربان ہیں۔ امیر بھی آتے ہیں، غریب بھی آتے ہیں، دونوں کے ساتھ ایک معاملہ ہے، عجب دربار ہے ۔ 
سلاطین کہتے ہیں: شاہی دربار تھا کہ فوج تھی، علم تھا، پولیس تھی، جلاد تھے، محتسب تھے، گورنر تھے، کلکٹر تھے، منصف تھے، ضبط تھا، قانون تھا۔ 
مولوی کہتے ہیں:مدرسہ تھا کہ درس تھا، وعظ تھا، افتا تھا ، قضا تھا ، تصنیف تھی، تالیف تھی، محراب تھی، منبر تھا۔ 
صوفی کہتے ہیں: خانقاہ تھی کہ دعا تھی، جھاڑ تھا، پھونک تھی، وِرد تھا، وظیفہ تھا، ذکر تھا، شغل تھا، تخت (چلہ) تھا، گریہ تھا، بکا تھا، وجد تھا، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی، فقرتھا، فاقہ تھا، زہد تھا، قناعت تھی، کنکریاں دی جاتی تھیںکہ کھارے کنوئوں کا پانی میٹھا ہو جائے، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا جاتا تھا، جس کو کہہ دیا جاتا تھا پورا ہوتا تھا۔ 
مگر سچ تویہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا اس لیے کہ وہ سب کے لیے آیا تھا۔ آئندہ جس کسی کو چلنا تھا، جہاں کہیں چلنا تھا،جس زمانہ میں چلنا تھا اسی روشنی میں چلنا تھا۔
بیرونِ عرب میںتبلیغ کا کام
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تعارف 6 1
3 دیباچہ 10 2
4 مکی زندگی 10 1
5 والدین کی وفات 22 4
6 عبدالمطلب کی کفالت اور ان کی وفات 22 4
7 ابو طالب کی کفالت 22 4
8 دائی حلیمہ سعدیہ 23 4
9 ملک ِعرب 23 4
10 قریش اور قریش کی حالت 24 4
11 ایامِ طفولیت اورشغلِ گلہ بانی 25 4
12 حجر اَسودکا جھگڑا 26 4
13 نکاح 26 4
14 خلوت پسندی 28 4
15 ابتدائے وحی 30 4
16 {اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِٰلہَ اِلَّا اَنَا} 30 4
17 تعذیب ِصحابہ ؓ 32 4
18 ہجرتِ حبشہ 33 4
19 نجاشی کے دربار میں جعفر طیارؓ کی تاریخی تقریر 34 4
20 ذاتِ مبارک ﷺ کے ساتھ ایذا رسانیوں کا آغاز 35 4
21 ابو طالب کو توڑنے کی کوشش 36 4
22 شعب ِابی طالب 37 4
23 شعبِ ابی طالب کے مصائب کی قیمت واقعۂ معراج 37 4
24 واقعۂ معراج کے متعلق چند ارشادات 38 4
25 جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات 40 4
26 طائف کی زندگی 40 1
27 طائف سے واپسی 42 26
28 جبرائیل امین ؑکا ظہورطائف کی راہ میں 44 26
29 جنوں سے ملاقات اوربیعت 47 26
30 مدینہ والوں سے پہلی ملاقات ٓ 48 26
31 انصارِ مدینہ کی پہلی ملاقات 49 26
32 دارالندوہ کا آخری فیصلہ اور ہجرت 53 26
33 سفرِ ہجرت کا آغاز اور اس کے واقعات 53 26
34 سفرِ ہجرت میں سراقہ سے گفتگو 55 26
35 مدنی زندگی 57 1
36 بنائے مسجد و صفہ 58 35
37 تحویلِ قبلہ کا راز 58 35
38 مؤاخاۃ اور اس کا فائدہ 59 35
39 اذان کی ابتدا 60 35
40 تبلیغِ عام کا آغاز 60 35
41 مشکلاتِ راہ 61 35
42 غزوئہ بدر 61 35
43 عہدِ نبوت کے جہاد میں شہدا اور مقتولوں کی اٹھارہ سو تعداد 62 35
44 بیرونِ عرب میںتبلیغ کا کام 64 35
45 اسلامی جہاد کی ترتیب 67 35
46 ازواجِ مطہرات 67 35
47 مدینہ میں دنیا کے مذاہب کا اکھاڑہ 67 35
48 حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیثیت 70 35
49 ختمِ نبوت 74 35
Flag Counter