میں جو آواز آئی وہ صرف یہ تھی:
’’عمار کے گھر والو ! اللہ تم پر رحم فرمائے۔ تنگی کے بعد کچھ دور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ فراخی پیدا کردے ۔‘‘
ہجرتِ حبشہ
چڑیوں کے بھی گھونسلے ہوتے ہیں جن میں وہ پناہ لیتی ہیں اور سانپوں کی بھی بابنیاں ہوتی ہیں جن میں وہ چھپ کر رگید نے والوں سے اپنی جان بچاتے ہیں، لیکن دعویٰ کے زور کو توڑنے کے لیے ستم کے جو پہاڑ جن غریبوں پر توڑے جا رہے ہیں ان کے پاس تو وہ بھی نہ تھا۔ ان میں بڑی تعداد ان غلاموں کی تھی جن کا نہ اپنا گھر ہوتا ہے اور نہ دریا۔ ایسے تھے جو دوسروں کے سہارے زندگی بسر کر رہے تھے، جس پر سہارا ہو جب وہ سہاروں کو ختم کرنے کے درپے ہو جائے تو اب اس کے لیے کہاں پناہ ہے؟ اتنا سرمایا بھی نہیں تھا کہ عرب کے اس ٹاپو کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں کسی اور جگہ اپنے سجدوں کے لیے جگہ پیدا کریں۔ اُف کہ ان کی پیشانیوں کو خدا ہی کی زمین پر زمین کا اتنا ٹکڑا بھی میسر نہ تھا جس پر وہ اپنی پیشانی اپنے خدا کے آگے رکھ سکیں۔
اس کو اپنی جگہ سے ہلانے کے لیے، اس جگہ سے ہلانے کے لیے جس پر قدرت نے بٹھانے والے کو بٹھلایا تھا دوسروں پر یہ دبائو ڈالا جا رہاتھا۔ بالآ خر اسی کو اپنے سینہ پر پتھر رکھنا پڑا اور اپنی چہیتی صاحبزادی اور محبوب داماد کو آمادہ کیا تاکہ دوسروں کو گھر مل سکے۔ اپنے گھر، نعمتوں سے بھرے ہوئے گھر کو چھوڑ دو! جلاوطنی کے مصائب سے قطعاً ناواقف نوجوان دولہا اور نویلی دلہن نے سر جھکا دیا اور بنِ گھروں کو گھر دلانے کے لیے یہ گھر والا سمندر پھاند کر حبشہ پہنچ گیا۔ حضرت عثمانؓآںحضرتﷺ کی صاحبزادی رقیہؓ جو ان کی بیوی تھیں، ان کو اور مکہ کے غربا فقرا اور اسی قسم کے اُن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر حبشہ پہنچے جن کے ماں باپ، اعزا اقربا ایمانداروں کو بے ایمانی پر مجبور کر رہے تھے۔ اور یہ پہلی دفعہ نہیں بلکہ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایمان پر کبھی جبر نہیں کیا گیا، لیکن بے ایمانی پر مجبور کرنے کے واقعات سے تو تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس پر بھی بے ایمانوں نے پھیلایا کہ ایمان ہی جبر سے پھیلا۔ بہر حال اسی جماعت میں ابوطالب کے نوجوان صاحبزادے جعفر طیار تھے۔ بڑی کش مکش ہوئی یہ دکھانے کے لیے کہ جانچ کا کام جن کے سپرد تھا انہوں نے جانچنے میں کوئی کمی نہیں کی، پرکھنے کے اس معاملہ کو اس نے آخر تک پہنچایا تھا۔
یہ دکھایا گیا کہ امتحان لینے والوں کی اس جماعت نے سلطنتوں کی بھی پرواہ نہ کی، ہاتھیوں والے بادشاہ کے شاہی دربار تک کے پردہ ہائے جلال کو چاک کرنے کی اگر اس راہ میں ضرورت پیش آئی تو وہ یہ بھی کر گزرے۔
جن کے انہماک و دلچسپی کا حال یہ ہو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آزمایش کے سلسلہ میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھا ہوگا؟