سے بڑی دلیل وہ خود تھا، اس کی زندگی تھی؟
حجر اَسودکا جھگڑا
مگر بایںہمہ قوم سے اس وقت تک جدا رہتا تھا جب تک ان کے احسان کا موقع ہوتا، لیکن اسی کے ساتھ یہ عجیب بات ہے جوں ہی قوم پر احسان کرنے کی کوئی گھڑی آئی لوگوں نے اس کو اس کی قوم میں ملا ہوا اور کھڑا ہوا پایا۔ حجر اسود کے فتنہ کے قریب تھا کہ قریش اپنے امن و عافیت کے آبگینہ کو چکنا چور کریں، لیکن دیکھو! بیابان میں انسانوں سے جدا ہو کر چوپایوں کے ساتھ رہنے والا آتا ہے اور جو درندوں کے مانند ، ٹھیک درندوں کے مانند، ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے والے تھے ان پھٹنے والوں کو کتنی آسانی سے جوڑ دیتا ہے۔ آڑے وقت کے یہی تجربات تھے جس نے باوجود الگ تھلک رہنے کے اس قوم جیسے سنگین دلوں پر اس کے امین و صادق ہونے کا نقش کندہ کر دیا تھا تا کہ کہنے والے کی وہ بات پوری ہو جو صدیوں پہلے کہی گئی تھی:
’’وہ امین صادق کہلاتا ہے اور اس کا ایک نام لکھا ہوا ہے جسے اس کے ماسوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
یوں ہی وہ اپنی زندگی کی مختلف منزلوں: پدری قوت، مادری قوت، خاندانی قوت، وطنی قوت، قومی قوت، ہر ایک کو بڑے زور سے توڑتا پھوڑتا جھٹلاتا ہوا مسلسل چلا آیا‘‘۔
مگر اب جو دعویٰ سے پہلے ا سکی دلیلوں کی تعمیر میں ردّوں پر ردے جماتا چلا آرہا تھا لیکن ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں سب کو حیرت تھی دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔
نکاح
تم دیکھ چکے ہو کہ اتنی عمر میں دنیا کے نوجوان کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں، اس نے کچھ حاصل نہیں کیا تھا۔ اور جس کو انسان سے زیادہ حیوانوں میں رہنا پڑا، محسوس و مرئی قوتوں کے اسیروں کی نگاہیں آخر اس میں کیا پا سکتی تھیں جس کی وہ قیمت لگاتے؟
یہ سچ ہے کہ اس کا خاندان عالی اور بلا مبالغہ اتنا عالی تھا ایسی بزرگی و شرافت بنی آدم کے کسی گھرانے کو میسر نہ آئی۔ اِس وقت ہی نہیں بلکہ اُس وقت بھی زمین کی آبادی کا تقریباً دو ثلث حصہ اسی دودمانِ عالی کے نفوسِ قدسیہ کی حلقہ بگوشی پر ناز کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ دنیا کے سارے یہودی و نصرانی اپنی ساری بزرگیوں اور شرافتوں کو اسی کے جدِاکبر ابراہیم ؑ پر ختم کرتے ہیں؟ پھر ابراہیم ؑ کے بچوں میں بھی جو بچہ کسی معمولی عراقی عورت کے بطن سے نہیں بلکہ شنہشاہ مصر کی صاحبزادی سے پیدا ہوا تھا۔ اور جو ابراہیم و ہاجرہ دونوں کے دکھ کی آواز کا لاہوتی جواب تھا۔ جس کا نام