سنگ دل سیاہ سینہ جانچنے والوں نے پھر کیا اس سلسلہ میں کہیں رحم کھایا؟ جو کچھ کر سکتے تھے سب کچھ کر رہے تھے، لیکن ان کا کہیں دل دکھا؟ عزت پر، آبرو پر، جسم پر، جان پر، حملوں کی کوئی قسم تھی جس کو انہوں نے باقی چھوڑا؟ یقینا ان کے ترکش میں کوئی تیرایسا نہ تھا جو چلنے سے رہ گیا۔ نکاحی بیٹیوں کو طلاق دلوائی گئی، 1 سر پر خاک ڈالی گئی، راہ میںکانٹے بچھائے گئے،2 پشت پر لید سے بھری ہوئی اوجھ نماز کی حالت میں رکھی گئی،چہرۂ مبارک پر بلغم تھوکا گیا، گردن مبارک میں پھندا لگایا گیا۔
شعب ِابی طالب
اورآخر میں سب جانتے ہیں کہ کھانا بند کیا گیا، پانی بند کیا گیا، زندگی کے تمام ذرائع روکے گئے، ایک ماہ نہیں پورے تین سال تک ابی طالب کی گھاٹی میں اسی طرح رہنے پر مجبور کیا گیا۔ خود ا ن کو مجبور کیا گیا اور ان کے ساتھ بوڑھے ابو طالب اور معصوم بچے، ناتواں عورتیں جو بنی ہاشم اور چند دوسرے خاندانوں کی تھیں اسی حال میں ڈالے گئے۔
وہی فطرتِ رحیمہ و رئووفہ جو انسان تو انسان کسی جانور کے دکھ کو بھی دیکھ کر تڑپ جاتی تھی، اس کے لیے آزمایش کی کیسی کڑی گھڑی تھی کہ ننھے ننھے بچے اس لیے بلبلاتے تھے کہ ان کی مائوں کی چھاتی میں دودھ نہیں ہے۔ آٹھ آٹھ دن، دس دس دن ان کے منہ میں اُڑ کر کوئی کھیل بھی نہیں پہنچی ہے۔ کیا سخت وقت ہے کہ پیشاب سے شرابور خشک چمڑے کو دھو کر بھون بھون کر ان کو کھانا پڑا جن کے دانتوں نے شاید سوکھا گوشت بھی نہیں چبایا تھا،3 جو پتے شاید بکریاں بھی شوق سے نہ کھاتیں ان پر ہفتوں بسر کرنا پڑا۔ مصیبت کی ان چیخوں، تکلیف کی ان پکاروں میں اس حساس فطرتِ طیبہ کے لیے کیسی عظیم بے چینی تھی اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جن کے دل میں درد ہو اور جو درد والوں کے لیے اپنے اندر کوئی ٹیس رکھتے ہوں، لیکن یہاں تو باطن کو ظاہر کر کے دکھانا تھا۔ چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ کریدنے والے جہاں تک ممکن ہو کریدیں۔ وہ مسل رہے تھے، رگڑ رہے تھے، انگلیاں ڈال ڈال کر ٹٹول رہے تھے کہ جو کچھ ظاہر کیا جا رہا ہے کیا اندر میں کچھ بھی کہیں بھی اس کے سوا کچھ ہے؟ تجربے کرنے والوں کے لیے تجربے کے سارے سازو سامان ، تمام آلات اور اوزار ایک ایک کر کے مہیا کر دیے گئے تھے کہ آیندہ ان ہی کو گواہی دینی تھی، ان ہی کو دنیا کے آگے فرضِ شہادت ادا کرنا تھا۔
شعبِ ابی طالب کے مصائب کی قیمت واقعۂ معراج
ابو طالب کے شعب کا مرحلہ بھی ختم ہو گیا۔یہاں دنیا کی ہر چیز سے جدا کیے گئے تھے اور جدائی کی رفتار کو گھاٹی کے ستم زدوں کے شور و فغاں نے اور تیز کردیا تھا۔ جو فطرتاً دنیا اور دنیا والوں سے کچھ جدا ہی جدا سا تھا جب قصداً بھی اس کو جدا کیا گیا اور ایسے سخت دبائو ڈال ڈال کر جدا کیا گیا جس سے زیادہ دبائو اس رقیق قلب کے لیے ممکن نہ تھا، سمجھا جا سکتا ہے کہ