ابو طالب کو توڑنے کی کوشش
اور اب سلبی آزمایشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ قریش کے گھاگوں کی مجلس نے طے کیا کہ اس کے لیے زیادہ لمبی چوڑی کوششوں کی حاجت نہیں، بلکہ ان کی ظاہری آنکھوں کے سامنے اس کی جو سب سے بڑی چٹان تھی جس پر اگر چہ وہ خود ٹیک لگائے ہوئے نہیں تھا، لیکن وہ یہی باور کرتے تھے کہ اس کی سب سے بڑی ٹیک اس کا چچا ابو طالب ہے، طے کیا گیا کہ بس اسی چٹان کو جس طرح بن پڑے کسی طرح اس کے قدموں کے نیچے سے سرکا لو۔ یقین تھا کہ اسی کے ساتھ وہ اور اس کا دعویٰ دونوں ہی سربسجود ہو جائیں گے۔ جو کچھ ممکن تھا اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کیا۔
ابتدا میں انہیں کچھ مایوسیاں ہوئیں اور اچھی خاصی مایوسیاں ہوئیں، لیکن واقع میں وہ کس طرح پر کھڑا ہے، اس کے عینی شاہد کس طرح پیدا ہوتے اگر ابو طالب اپنی چالیس سال کی محنت و محبت کو برباد کرنے پر آمادہ نہ ہو جاتے؟ تاریخ نے اس درد ناک مرقع کی تصویر محفوظ رکھی ہے جس وقت اپنے گودوں کے پالے ہوئے یتیم بھتیجے کو لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں آبدیدہ ہو کر ابوطالب کہہ رہے تھے:
لَا تَحْمِلْنِیْ مَا لَا أُطِیْقُ۔
مجھ پر اتنا نہ لادو جسے میں اٹھا نہ سکوں۔
قریش کامیاب ہو گئے، چٹان لڑھک گئی، لیکن قریش ہی نے نہیں بلکہ دنیا نے دیکھا کہ جس کو گرانے کے لیے یہ کیا گیا وہ جہاں تھا وہاں سے ہلا بھی نہیں، صرف آواز آرہی تھی کہ کہنے والا کہہ رہا ہے:
’’خدا کی قسم! میرے داہنے ہاتھ میں آفتاب اور بائیں میںماہتاب اگر اس لیے رکھ دیا جائے کہ میں اس امر کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑ دوں تو یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ تو ان کی ایجابی کوششوں کی امید۔ دبی چھپی چنگاریوں کو آخری طور پر بجھانے کے لیے فرمایا گیا، اور اس کو تو وہ دیکھ بھی چکے تھے۔ آفتاب و ماہتاب تو ان کے پاس تھے نہیں، لیکن جو کچھ بھی تھا سب کو دے کر مایوس ہو چکے تھے۔ باقی اب جن سلبی اور ایذائی مہموں کاا نہوں نے آغاز کیا تھا اس کے متعلق بھی قطعی لفظوں میں اعلان کر دیا گیا:
’’یہ کام پورا ہوگا یا میں اس میں مر جائوں گا ۔ ‘‘
کام تو پورا ہونے والا تھا اور اس میں شک کی گنجایش ہی کیا تھی؟ لیکن دے کر تو تم دیکھ چکے ہو اب لے کر دیکھو۔ اچھی طرح دیکھو اس سلبی امتحان کی راہ میں جان تک کی بازی لگادی گئی اور یہی مطلب تھا:
أَوْ أَھْلَکُ فِیْہٖ۔
یا میں اس میںمر جائوں گا یا مارا جائوں گا۔