پوچھا بھی گیا تھا:
ھَلْ أَتَی عَلَیْکَ یَوْمٌ کَانَ أَشَدَّ عَلَیْکَ مِنْ أُحْدٍ ؟
کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا؟
اسی کے جواب میں جس پر گزری اس نے طائف پیش کیا تو جن پر نہیں گزری اب ان سے کیا پوچھا جائے؟
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ٹھیک جس طرح ابی طالب کی گھاٹی میں جو ایک طرف سے دبایا گیا تو دوسری سمت وہ بلند ہوااور اتنا بلند ہوا کہ ارض و سموات، سفلیات وعلویات،مرئیات وغیر مرئیات، حتیٰ کہ جس پر سب ختم ہوتے ہیں منتہیٰ کا یہ سدرہ بھی اسی کے احاطہ میں آگیا۔
بجنسہٖ کچھ اسی طرح طائف کی گھاٹی میں جو واپس کیا گیا اور اس طرح واپس کیا گیا کہ جن سے ملتے وہی پھٹتا، جس سے چمٹتے وہی سمٹتا، جس کو بلاتے وہی دردراتا، جس سے جوڑتے وہی توڑتا۔ انکار کی یہ آخری حدتھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے ٹکرارہا ہے، جو ہے رد کر رہا ہے۔
اگر یہ ہو رہا تھا اور دن کی روشنی میں ہو رہاتھا تو کیوں نہ سمجھا گیا کہ جس قدرت کے ہرمنفی قانون کی انتہا مثبت پر ہوتی ہے جس کے ہر عمل کی تان ردِ عمل پرٹو ٹتی ہے، عمل درعمل کی گتھیوں میں گتھی ہوئی اس دنیا میں جب یہ واقعہ یوں ہی ہو رہا تھا تو بلاشبہ صفا کے دامن سے جس انکار کی ابتدا ہوئی تھی طائف کی اس گھاٹی میں اس کی انتہا ہو گئی۔
جو رد کیا گیا قبول کیا جائے گا، جو ہنکایا گیا بلایا جائے گا، جو گرایا گیا اٹھایا جائے گا ، عقل کا مقتضا تھاکہ ایسا ہوتا اور شاید کہ ایسا ہی ہوا، مگر اس دنیا کی رِیت یہی ہے کہ مسبب ہمیشہ سبب کے رنگ میں آتا ہے، اصل نقل کے بھیس میں آتا ہے۔ کس قدر عجیب ہے امتحان وابتلا کی اس طویل مکی زندگی میں ’’پڑرہی تھی اور جھیل رہا تھا‘‘ اس نظارہ کے سوا اور کوئی تماشا کبھی پیش نہیں ہوا،لیکن جب مکہ کے ان ہی واقعات کا تکملہ طائف میں ہوتا ہے تو دیکھو جو شروع ہوا تھا وہ اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ کر ختم ہو گیا۔
طائف سے واپسی
زیدؓ نے شہرسے باہر نکال کر خون سے لتھڑے ہوئے جسم کو دھو دھا کر صاف کیا۔ سامنے کے ایک باغ میں کچھ آرام لینے کے لیے پہنچایا ۔ جہاں زخموں سے خستہ و بے جان، بھوک اور پیاس سے نڈھال پردیسی مسافر کی مہمان نوازی انگور کے چند خوشوں سے کی گئی، جس سے دل ٹھکانے تو کیا ہوتا لیکن صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قدم اٹھا سکیں، لیکن قرن الثعلب کے موڑ تک پہنچے تھے کہ ناتوانی نے بٹھا دیا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور وہی جو انکار کے عمل کو آخری حد پر پہنچا کر اب ردِ عمل کا آغاز