گرے گا وہ بھی چکنا چور ہوگا، پھٹے ہوئے نہیں بلکہ تاریخ کے کھلے ہوئے مسلسل اوراق میں یہی لکھا ہوا ہے، یہی لکھا جائے گا۔
بہر حال یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تا ایں کہ بالآخر تاریخ کے اس عجوبہ طراز عہد میں نسلِ انسانی داخل ہو گئی جس میں ہر بعید قریب ہر دور نزدیک، بلکہ ہر شاہد ہر غائب حاضر ہوگیا۔ مکانی فاصلے حذف ہو گئے اور وہی دنیا جو کبھی متعدد دنیا سمجھی جاتی تھی ایک دنیا، بلکہ اگر کہو تو کہہ سکتے ہو کہ ایک بستی ہو ئی۔ زمانی مسافتیں کم ہو گئیں بلکہ شاید زمانہ کی تین قسموں اور تین حصوں میں سے ایک حصہ ماضی کا تقریباً قابلِ ذکر نہیں رہا کہ اب جو گزرتا ہے اب نہیں گزرتاہے اور جو غائب ہوتا ہے حاضر رہتا ہے۔ وہی نہیں جنہیں دنیا میں کچھ اہمیت حاصل ہے بلکہ دنیا کی ادنیٰ ادنیٰ پیداوار جو کبھی پیدا ہونے کے ساتھ ہی مٹ جاتی تھیں وہ بھی اب ان مٹ ہوگئیں۔ قدرت نے اپنی پوشیدہ طاقتوں کا خزانہ، برق تار، برق لاسلکی، فون وغیرہ کی شکلوں میں فیاضی کے ساتھ وقفِ عام فرمایا ہے۔ آخر آج کون گن سکتا ہے ان ذرائع اور وسائل کو جن کے ذریعے سے دنیا کے حوادثات وواقعات تحریریں، تقریریں محفوظ ہو رہی ہیں؟ بزم و بازارمیں آج یہ چیز یں ماری ماری پھرتی ہیں اور ہر اعلیٰ و ادنیٰ کو میسر ہیں۔ آج کوئی امانت کی اندر سبھا اور شرر کے ناول کو مٹا نہیں سکتا پھر یہ اندیشہ اب کون کر سکتا ہے کہ تجربات کے ان ذخیروں کو اب کوئی حادثہ فنا کر سکتا ہے؟ ان سازو سامان کے بعد کس قدر عجیب ہے اگر کہا جائے کہ جو رسول عرب میں پید اہوئے تھے وہ عرب میں ہی پیدا ہوئے تھے اور جس کی ولادت چھٹی صدی میں ہوئی تھی وہ چھٹی صدی میں ہی ہوئی تھی۔ اس زمانے کے جب غائب کو حاضر اور دور کوقریب سمجھا جاتا ہے کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ پھران تمام غائبوں میں سے جو سب سے زیادہ حاضر اور ایسا حاضر کہ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اتنا حضور ہم میں سے کسی کو خود اپنے سامنے نہیں ہے، ان تمام قریبوں میں جو سب سے زیادہ قریب اورا تنا قریب ہے کہ خود ہم اپنے سامنے اپنے کو اس قدر قریب نہیں پاتے۔
آخر ہم میں کون ہے جس کے دماغ میں اپنی پیدایش،طفولیت،شباب، کہولت، خلوت، جلوت کے تمام واقعات اور اس کے تمام پہلو اتنی صفائی کے ساتھ موجود ہوں جتنی تابناکی کے ساتھ دنیا اس شخص کے متعلق جانتی ہے جو اگر چہ آج سے صدیوں پہلے عرب میں ظاہر ہوا، لیکن جس کے ظہور کی شد ت ہر پچھلی صدی میں پہلے سے زیادہ محسوس کی گئی، کی جارہی ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ اسی بڑھتی ہوئی اشتدادی کیفیت کے ساتھ محسوس کی جائے گی کہ قدرت نے اب جن سامانوں کو پیدا کیا ہے ان کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔
ختمِ نبوت