ساتھ اٹھا۔
دنیا والے ،ساری دنیا والے بلکہ حد تو یہ تھی کہ اس آزاد دنیا والے بھی انسانوں کے آگے تو نہیں لیکن سچی قوت سے ٹوٹ کر جھوٹی اور وہمی قوتوں کے وہمی بوجھ کے نیچے شاید تین ساڑے تین سو سال سے دبے ہوئے تھے1 اور کتنے ہیں جو اب تک دبے ہوئے ہیں، وہ ان تمام کا ذب قوتوں کو جھٹلاتا ہوا اٹھا۔
والدین کی وفات
پھر دیکھو! جس کا باپ مر جاتا ہے تو جھوٹی قوتوں کے ماننے والے گھبرا گھبرا کر چلاتے ہیں، واویلا مچاتے ہیں کہ اس بچے کو کون پالے گا؟ بے زوری کو زور کہنے والوں کا زور توڑنے کے لیے خود اس کے ساتھ یہ دیکھا گیا کہ پیدا ہونے کے بعد نہیںبلکہ اس سے پہلے کہ وہ آئے، اس میدان میں آئے جہاںجھوٹی قوتوں سے آزادی کا پرچم کھولا جائے گا، وہ دھوکے کی اس قوت سے آزاد ہو گیا جس کا نام دنیا نے باپ رکھا ہے۔ اور ٹھیک جس طرح ظہور سے پہلے اس کی ہستی نے اس آزادی کی شہادت ادا کی، نمودکے ساتھ ہی چند ہی دنوں کے بعد اس غلط بھروسے کا تکیہ بھی اس کے سرکے نیچے سے کھینچ لیا گیاجس کو ہم سب ماں کہتے ہیں۔
عبدالمطلب کی کفالت اور ان کی وفات
جو اپنی جوانی کی قوتوں کو کھوکر بڑھاپے کی ہلی ہوئی دیوار کے سہارے زندگی کی نمایش ختم کر رہاتھا، اس پیرانہ سری کے ساتھ آپ کے جدِامجد نے چاہا تھا کہ سچی آزادی کی واشگاف ہونے والی حقیقت میں کچھ اپنی شرکت سے اشتباہ ڈال دیں،لیکن جو اپنے دعویٰ کی خود دلیل تھا اس کی دلیل کمزور ہو جاتی اگر عین وقت پر عبدالمطلب کی سرپرستی کے فریب کا پردہ چاک نہ کر دیا جاتا، آخر وہ بھی چاک کر دیا گیا۔
ابو طالب کی کفالت
حقیقت جتنے بَیِّن اور شاندار چہرے کے ساتھ اب اس بے مادر پدر اور لاوارث یتیم کی پیشانی سے چمک رہی تھی وہ نہ چمکتی اگر کہیں بجائے بے مایہ و بے بضاعت عمِ محترم جناب ابوطالب کے خدا نخواستہ آپ کی نگرانی مکہ کے ساہو کار عبدالعزیٰ المشہوربـ ابی لہب کے سپرد ہوتی، لیکن شیر کے بچے لومڑی کے بھٹوں میں نہیں پالے جاتے، جس قطرہ کی قسمت میں موتی ہونا ہے وہ گھونگھوں اور مینڈکوں کے منہ میں نہیں گرتا۔
غریب ابو طالب کی کفالت سے ا س کے برہانی وجود میں کیا ضعف پیدا ہوتا جس کے متعلق شاید بہتوں کو علم نہیں ہے کہ مدتوں ان کی یعنی ابو طالب کی گزران قراریط1 پر ہی تھی جو بکریوں اور اونٹوں کے چرانے کے صلہ میں ان کا یتیم بھتیجا مکہ