ہاتھ لوگوں کی امیری بھی ہے اور غریبی بھی۔ جس دعویٰ کو وہ لے کر حرا سے بعد کو آیا، دیکھتے جائو کہ کن پیکروں میں اس کی دلیلیں کہاں کہاں سے ابل ابل کر جریدۂ عالم پر ثبت ہو رہی ہیں؟
ایسا دعویٰ کس نے سنا؟ اور ایسی دلیل کس نے دیکھی؟ دعویٰ سنایا گیا اور دلیل دکھائی گئی۔ عالمِ استدلال و برہان کی قطعاً انوکھی چیز ہے (صلاۃ اﷲ علیہ وسلامہ)۔ اور دیکھو کہ اسی کے ساتھ ایک روشنی ہے جس میں پڑھنے والے چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں کہ آیندہ جو جنبش ہوئی وہ اس سے نہیں ہوئی کہ افلاس نے کسی کو مضطرب کیا ہے، ناداری سے کوئی تڑپا ہے۔
خلوت پسندی
بہرحال امیری جب آتی ہے تو اپنی شانوں کے ساتھ آتی ہے، ٹھاٹھ کے ساتھ آتی ہے، باٹھ کے ساتھ آتی ہے، لیکن جس کو قصر میں برا جنے کا موقع دیا گیا تلاش کرو وہ ویرانوں میں ملے گا۔ مکہ کے رئیس اپنی کوٹھیوں میں ہیں اور طائف کے امرا پھلوں اور پھولوں سے لدے باغوں اور ان کے بنگلوں میں ہیں، لیکن جو سب سے بڑی امارت کا مختار کل اور متصرف مجاز ہے وہ پہاڑوں کے اندھیرے غاروں میں ہے۔ پھر جو سرمایہ اس کو ملا کیا وہ مہاجنی کے بازاروں میں ہے؟ رشتوں کو جوڑا گیا ، مہانوں کو کھلایا گیا، بیکاروں کو کموایا گیا، بار والوں کا بوجھ ہلکا کیا گیا، نادانوں کو سکھایا گیا، بپت کی گھڑ یوں میں لٹایا گیا، یہ حضرت خدیجہؓ ہی کی رپورٹ ہے جس میں ان کی دولت کام آئی۔1
پھر جو ان میں چھوٹا تھا وہ بڑا ہو چکا تھا۔ مال میں بڑا ہو چکا تھا، جاہ میں بڑا ہو چکا تھا، اور اپنے ہم چشموں ، ہم عصروں ، ہم زادوں سب میںسب سے بڑا ہو چکا تھا۔ آخراس سے زیادہ بڑائی کس کو حاصل تھی؟کالے پتھر کے لیے سرخ خون کی جو ندی بہنے والی تھی جس کے اکیلے ہاتھ نے اس طوفان کا رخ پلٹ دیا تھا، جس کے گھر کا مہمان ہمیشہ اکرام کے ساتھ واپس ہوا، جس کے دامنِ دولت کے نیچے یتیموں کو پناہ ملی، جو بے روز گاروں کو روز گار دلانے کا روز گار کرتا تھا، جو بے ہنروں کو ہنر سکھواتا تھا، بھاری بوجھ والوں کا بار اٹھاتا تھا، وہ آڑے وقتوں میں آڑ بنتا تھا، جو کچھ قدرت نے اس تک پہنچا یا تھا وہ اس کو ان ہی راہوں میں بہاتا رہا۔
جس نے نیکی کی اتنی پیچ درپیچ شاخوں میں اپنا سارا سرمایہ ساری توانائی لگا دی تھی، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد شہرت و عظمت، جاہ جلال کی جو بلند یاں اسے میسر آئیں ایسی برتری ان میں کس کو نصیب ہوئی تھی؟ مال و ثروت کی دیویوں یا مندروں میں صدق و امانت جیسی صفات کی مانا کہ پرستش نہ ہوتی ہو، لیکن کیا جاہ کے اکھاڑوں میں کردار کی ان قوتوں سے بازی نہیں جیتی جاتی؟ اور بلاشبہ وہ صرف اپنے شہر میں نہیں بلکہ اس شہر میں جہاں جہا ن بھر کے لوگ آتے تھے اور کون بتا سکتا ہے کہ کہاں کہاں کے لوگ آتے تھے، زیارت کے لیے بھی آتے تھے اور تجارت کے لیے بھی آتے