ٹخنے خون آلود ہو جاتے۔
مگر یہ منفی عمل کی گھڑیوں کا تماشا تھا، اب اسی عمل کا ردِعمل مثبت شکل میں شروع ہو چکا تھا، غیب اور اس کے سارے مدارج تسخیرِ قوت کے آگے جھک چکے تھے، اور اب محسوس و شہادت کی حد شروع ہو تی ہے، پھر دیکھو غیب میں جس طرح سے پہلے وہ دیا گیا تھا جو سب سے بڑا تھا، شہادت میں بھی اس کے قدموں پر سب سے پہلے جو گرے یا گرائے جاتے ہیں ان کا تعلق جمادات و نباتات یاحیوانات سے نہیں، بلکہ ان سے ہے جو ان سب میں بڑا گنا گیا۔
انصارِ مدینہ کی پہلی ملاقات
رات کا وقت ہے چاند کی روشنی میں اونٹوں کے درمیان قبائل کے خیمے چمک رہے ہیں، پچھلے موسموں میں تقریباً ان میں سے ہر ایک نے جس کو دھکیلا تھا وہی ردِ عمل کے ساتھ اب ان میں آتا ہے۔ کسی بڑے مجمع کی طرف نہیںبلکہ دس یا دس آدمیوں سے بھی کم کی ایک ٹولی پر نظر پڑتی ہے۔ قریب آتے ہیں ، پوچھا جاتا ہے:
مَنْ أَنْتُمْ ؟
تم لوگ کو ن ہو؟
ٹولی والوں میں سے ایک کہتا ہے:
مِنَ الْخَزْرَج۔
خزرج قبیلہ کے لوگ ہیں۔
کیا تم بیٹھ سکتے ہو تم سے میں کچھ کہنا چاہتاہوں؟ ہاں! کیوں نہیں۔
جواب ملتا ہے: کیا اللہ کی طرف آتے ہو؟ اللہ کے سامنے جھکتے ہو؟
دس گیارہ سال تک اسی میدان میں، اسی موسم میں، کیاکچھ نہیں کہا گیا؟ کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اسی میدان میں، اسی موسم میں، اسی ہوامیں، اسی فضا میں آج چند لمحہ میں یہ چند الفاظ زبان سے نکلتے ہیں، پھر دیکھیے جس پر، جس کے قدموں پر غیب گر چکا تھا ان ہی قدموں پر شہادت والے آج گرتے اور اس طرح گرتے ہیں کہ پھر کبھی نہیں اٹھیں گے۔
انہوں نے باہم ایک دوسرے سے کچھ کہا ایک لمحہ یہ تھا اور دوسرا لمحہ یہ تھا کہ جس کو سب نے لوٹایا تھا اس کے آگے یہی ٹولی لوٹ رہی تھی، جو کچھ کہا جارہاتھادہر ارہی تھی۔ خدارا بتائو کہ اگر یہ صرف عمل کا ردِ عمل نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ دس سال تک مکہ والوں نے کیوں نہیں مانا اور دس منٹ بلکہ اس سے بھی کم مدت میں ان لوگوں نے کیوں مان لیا؟ کس کے بس میں ہے جو اسباب کی روشنی میں اس عُقدہ کی گرہ کھول سکتا ہے؟ مکہ والوں میں کیا نہیں تھا جوان میں تھا؟ غریب یہ تھے تو