بادشاہتیں ختم ہو گئیں، سلطنتیں مٹ گئیں، لیکن تاریخ کے اس طویل عرصہ میں دنیا کی جو سلطنت اب تک اپنے پائوں پر قائم1 اور جس کو چِت کرنے کے لیے سائنس اور کیمیا کے ہتھیاروں سے اس وقت تک کوشش جاری ہے لیکن دنگل میں ابھی تک خم ٹھونک رہی ہے۔ اسی حبشہ کے تخت کا نجاشی اپنے وزیروں ،امیروں، پادریوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا ہے، اور جو اللہ کے غلاموں کو اپنا غلام بنانے کے لیے آئے ہیں اچھل رہے ہیں کہ ان کی پیاسی تلواروں کے لیے اب خون دیا جائے گا اور ان کے انگاروں کے لیے اب کباب عطا ہوں گے۔
نجاشی کے دربار میں جعفر طیارؓ کی تاریخی تقریر
لیکن جو نہی کہ وہ نوجوان1 ان کے سامنے اَن دیکھی قوت کے ساتھ اٹھ کر کڑ کتا ہے:
’’سن اے بادشاہ! ہم لوگ جاہلیت میں غوطے کھا رہے تھے، ہم پتھر کی کھودی ہوئی مورتوں کے آگے جھکتے تھے، ہم مردار کھاتے تھے، ہم بے حیائیوں سے لت پت تھے، ہم رشتوں ناطوں کو کاٹتے تھے، ہم اپنے پڑوسیوں کے لیے صرف دکھ اور رنج تھے، زور والے ہمارے بے زوروں کو نگلتے چلے جار ہے تھے کہ اچانک ہم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اٹھایا، جس کے نسب کو بھی ہم جانتے ہیں، جس کی سچائی کا ، صدق کا ، امانت کا ، پارسائی کا، ہم سب کو تجربہ ہے۔اسی نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف پکارا اور حکم کیا کہ ان ساری گندگیوں ، ان سارے جھوٹے پتھر کے کھودے ہوئے دیوتائوں سے ٹوٹ کر جدا ہو جائیں جن کے ساتھ ہم پہلے لپٹے ہوئے تھے۔
اے بادشاہ! اس نے ہم پر اصرار کیا ہے کہ جس کی امانت ہو اس کو واپس کر دیں۔ رشتوں اور برادریوں کو جوڑیں۔ پڑوسیوں سے حسن سلوک برتیں۔ اللہ نے جن باتوں سے ٹوکا ہے، جس کے خون سے روکا ہے، ان سے رک جائیں۔ بے شرمی کے کاموں، بے حیائی کے دھندوں کو چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں منع کیا ہے کہ بناوٹی باتیں نہ بنائیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، پاک باز عورتوں پر تہمت نہ جوڑیں۔
(دہراکے زور دیتے ہوئے) اس نے ہم کو حکم کیا ہے کہ ہم اللہ ہی کو پوجتے رہیں، کسی کو اس کا ساجھی اور شریک نہ بنائیں۔
اور اس نے ہم پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں، زکوٰۃ ادا کریں اور روزے رکھیں۔
پس ہم اس پر سچا یقین کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی باتوں کو مانتے ہیں، جو کچھ اللہ کے یہاں سے لایا ہے اس پر ہم چلتے ہیں۔ ( پھر پلٹ کر ) اسی لیے ہم صرف اللہ ہی کو پوجتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک و سہیم نہیں سمجھتے۔ اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہم نے ان کو حرام کیا، جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہم نے بھی ان کو حلال کیا۔‘‘
سناٹا چھا گیا، اپنی زمین کا سب سے مطلق العنان بادشاہ چیخ اٹھا۔1 روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا: