شریک ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ایک راستوں کو ڈھاتا اور دوسرا بند کرتا ہے، اس کے سوا اور کیا فرق ہے؟
صحیح ہے کہ ہندوستان میں بدھ مت کے فلسفہ نفس کشی نے بڑی گندی شکلیں اختیار کی تھیں۔ دم مارگی پیدا ہوئے تھے، مائنگ ودیااور دم مارگی تک پائے جاتے تھے،1 اگھوری ہونا آتما کی بڑی پاکی تھی، لیکن آج گندگیوں میں صفائی کے مدعی بن کر جو لت پت ہیں اگھوروں کو بھی قے ہو اگر ان کا حال سنایا جائے۔ بے پردگی و عریانی نے جنسی لذتوں کو جس حد تک بے جان کیا ہے اس میں جان ڈالنے کے لیے آج مغرب کا اگھوری جو کچھ کر رہا ہے واقعہ یہ ہے کہ اس کے سامنے مشرق کا اگھوری بھی شرمندہ ہے۔ الحاصل جو کچھ اس وقت تھا جہاں تک سوچو گے تقریباً کسی نہ کسی شکل میں تم اس وقت بھی اس کو پائو گے۔2 پس آنے والا کیسے جا سکتا تھا جب تک کہ وہ سب نہ جائیں جن کے لیے وہ آیا تھا؟ بلکہ اس کی ضرورت تو اس کے بعد بھی رہے گی کہ دنیا تو مسلسل محوِ تخریب ہے، لیکن کیا تعمیر بغیر معمار کے ممکن ہے؟ اور یہی میرا مقصد تھا جب میں نے یہ کہتے ہوئے سب سے پہلے کہا تھا کہ یہی وہ آنے والا ہے جو آنے ہی کے لیے آیا۔ پھر جس طرح آج وہ ہم میں موجود ہے، اس کی ضرورت موجود ہے، ان سب کودیکھ کر اب بھی کوئی شک کر سکتا ہے کہ آنے کے بعد وہ نہیں گیا؟ اور جب تک اس کی ضرورت ہے نہیں جائے گا؟ تھا، ہے، رہے گا، ابد تک رہے گا اور اس لیے یہی مقدر ہے۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِيّ وَعَلٰی اٰلِہِ وَ أَزْوَاجِہِ أُمَّہَاتِ الْمُؤمِنِیْنَ وَعَلٰی ذُرِّیَّتِہِ وَعَلٰی الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسِلِمَاتِ کَمَا صَلَّیْتَ وَبَارَکْتَ عَلٰی سَیِّدِنَا إِبْرَاہِیْمَ فِيْ الْعَالَمِیْنَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔
پس اے اخوان عزیز!
{وَ جَاہِدُوْا فِی اﷲِ حَقَّ جِہَادِہٖط ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَط ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمیْنَ oلا مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَٰاتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاﷲِط ہُوَ مَوْٰلکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُع}
کوشش کرو اللہ کی طرف بلانے کی کوشش کا پورا حق ادا کرتے ہوئے، اسی نے ( اے امتِ اسلامیہ!) تم کو چن لیا ہے اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں فرمائی۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے پہلے بھی اس میں بھی۔ (کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) رسول تمہارے نگران رہیں گے اور تم دنیا کے نگران رہو گے۔ پھر لوگو! نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور زور سے پکڑو اللہ کو وہی تمہار ا آقا ہے، پھر کتنا اچھاآقا ہے ، کتنا اچھا مدد گار۔
جب تک جانے کے لیے آنے والے آتے رہے اشخاص چنے جاتے تھے، لیکن جب وہ آیا جو آنے ہی کے لیے آیا تو اس کے طفیل میں اس کے ساتھ شخص نہیں بلکہ ایک امت ہی چنی گئی۔1 پہلے شخص مبعوث ہوتے تھے اب ایک امت ہی مبعوث ہے۔یہی اس امت کا اصل منصب اور فرضِ حقیقی ہے۔ جب تک وہ اس منصب پر قائم رہیں گے اور انسانوں کی نگرانی