یہی وہ عذاب ہے جو آخرت سے پہلے ان کو دنیا میں چکھنا پڑا۔ چکھ رہے ہیں برضا و رغبت چکھ رہے ہیں۔
مگر کیا انسانیت کی یہ توہین صرف پہلوں میں تھی؟ پرانوں نے خالق کے معبود ہونے سے انکار کیا بے شک اس کے صلہ میں انہیں بندروں کو مسجود بنانا پڑا، لیکن جن لوگوں نے اپنے تئیں خداکی مخلوق ہونے میں شک کیا تھا آج بندر کے مولود ہونے کا اپنی زبان سے کیوں اقرار کر رہے ہیں؟ جس نے بند ر کو معبود بنایا کیا شبہ ہے کہ اس نے انسانیت کو رسوا کیا، لیکن جس نے خدا کی مخلوق ہونے سے انکار کر کے بندر کے مولود و مسعود ہونے پر فخر کیا، کتابیں لکھیں، دلائل قائم کیے قائم کر رہے ہیں، کیا انسانیت کی خواری میں انہوں نے کوئی کمی کی ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ ہر چیز کی قیمت لگاتے ہوئے یکایک چیخ اٹھتے ہیں کہ انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ سب انسان کے لیے ہیں لیکن انسان کسی کے لیے نہیں، کسی مقصد کے لیے نہیں کیا۔ اس نے انسانیت کو ان عفونتوں اور غلاظتوں سے بدتر نہیں ٹھہرایا جن سے انسانوں کے کتنے مقاصد وابستہ ہیں؟ جب انہوں نے کہا کہ انسان اپنے خدا اور خالق کے لیے نہیں ہے تو کیا اس کے بعد یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انسان کسی کے لیے ہے بھی؟ پانی کا کیا بگڑے گا اگر آدمی نہ ہوں؟ ہوا کیوں رک جائے گی اگر آدمی نہ ہوں؟ آفتاب میں کیا داغ آئے گا اگر آدمی نہ ہوں؟ حتی کہ سڑک کے کسی سنگر یزے اور جنگل کے کسی تنکے کا کیا نقصان ہے اگر کوئی نہ ہو؟ تمہارے بڑے نہ ہوں، چھوٹے نہ ہوں، کوئی نہ ہو، بے شک سب ان کے لیے ہیں، لیکن مخلوقات کے اس طویل و عریض سلسلہ میں انسان کسی کے لیے نہیں؟ اب اگروہ خالق کے لیے بھی نہیں ہے تو اس سے زیادہ عبث و بے نتیجہ ،فضول و مہمل بے ہودہ ہستی اور کسی کی ہو سکتی ہے؟ اس رسوائی سے بڑی رسوائی ، اس ہتک سے بڑی ہتک اور کیا ہو سکتی ہے؟
اور یہ تو ایمان کا حال ہے، عمل کے میدان میں ان جاہلوں کے پاس کیا تھا جو آج کے عالموں کے پاس نہیں ہے؟
عرب کے جہل نے کیا پیدا کیا تھا جو آج کے علم سے نہیں پید ا ہو رہا ہے؟ جاہل شراب پیتے تھے، مردار کھاتے تھے، زنا کرتے تھے، سود خوار تھے جواری تھے ایک کا خون دوسرا پیتا تھا، املاق و افلاس کے اندیشہ سے لڑکوں کو لڑکیوں کو گور میں زندہ دفن کرد یتے تھے، لیکن یہ قصہ کن کا سنایا جا رہا ہے ؟ عرب کے جاہلوں کا یا یورپ کے عالموں کا؟ وہاں کیا دکھاتے ہو جسے یہاں ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے؟ عرب سے باہر ایران میں ایک طر ف مزدک زر، زمین ، زن کو سب سے چھین کر سب کو دے رہا تھا اور دوسری طر ف مانی اور اس کے شاگرد ہاتھوں میں استرے لیے پھرتے تھے کہ جس راہ سے یہ برائیاں آئی ہیں ان ہی کا قلع قمع کر دیا جائے۔1 وہ انسانوںکو انسانوں میں آنے سے روکتے تھے یہی ان کا فلسفہ تھا، لیکن یہ تو ایران میں ہو رہا تھا، آج یورپ کے ایک حصہ میں پھر وہی مزدک زندہ ہو کر بالشویک کے نام سے کیا وہی سب کچھ نہیں کر رہا ہے جو اس نے کیا تھا؟ اور دوسری طرف برتھ کنڑول کے نام سے اسی طرح انسانوں کو انسانوں کی سوسائٹی میں