وقت تک باقی ہے، پھر جب تک پیاس ہے پانی چھلکے گا اور جب تک بھوک ہے روٹی معدوم نہ ہوگی، آخر اُس وقت کیا تھا جو اب نہیں ہے؟ یہ سچ ہے کہ دنیا اپنے خالق سے ٹوٹ کر اس زمانہ میں مخلوقات کے اندر غرق تھی لیکن کیا آدم کی اولاد تباہی کے اس گرداب سے نجات پاچکی؟
بلاشبہ جنہیں اس کی برکت میسر آئی ہے ان میں اکثر وں کا، ان کا جو مرتد یا منافق نہیں ہی ان کا بیڑہ خطرہ سے ان شاء اللہ نکل چکا ہے، لیکن کون کہتا ہے کہ سب کا نکل چکا ہے؟
پھڑپھڑا رہے ہیں ہندوستان کے ایک قطعۂ اراضی میں اتنے پھڑ پھڑا رہے ہیں کہ ان کا شمار صد و ہزار سے نہیں بلکہ کروڑوں سے کیا جاتا ہے، اور یہ تو صرف ہندوستان کا حال ہے اس ملک سے باہر بھی کیا جاتا ہے۔
آباد جزیروں کے اس جنگل میں جہاں آفتاب نکلتا ہے اور مشرق کا وہ گنجان خطہ جہاں بنی نوع انسان کی سب سے بڑی آبادی ہے، کیا جاپان و چین کے ان باشندوں کی اپنے مالک سے صلح ہو چکی ہے؟ 1 یقینا ایک گروہ وہاں بھی ایسا پیدا ہوچکا ہے جس نے مخلوقات کی بندگی کا جوا گردنوں سے پھینک کر حقیقی اور سچی زندگی حاصل کی ہے، لیکن کون نہیں جانتا کہ ان ممالک کی اکثریت بھی اسی طرح اپنے مالک سے روٹھی ہوئی ہے جس طرح اس کے آبائو اجداد روٹھے ہوئے ہیں۔
غریب مشرق تو پسماندگان کا ملک ہے لیکن جن کی پیش گامیوں کا ڈھنڈورا اس زور سے پیٹا جا رہا ہے، کیا یورپ کے ان باشندوں کی سمجھ سیدھی ہو چکی ہے؟ باپ بیٹے کے قدیم افسانے کو توچھوڑو لیکن جن خلقتوں کی ایجاد و تخلیق کی انہیں توفیق بخشی گئی، بجائے توفیق بخشنے والے کے خود اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی ان مخلوقات کو اپنے دلوں میں نہیں بٹھائے ہوئے ہیں؟ یقینا ان کے قلوب ان کی جدید مخلوقات کی انتہائی عظمت سے اسی طرح لبریز ہیں جس طرح ان کے بزرگوں کے دل پرانی مخلوقات کے احترام سے معمور تھے۔
پہلوں کی عقل کو سورج کی شعاعوں ، آگ کے شعلوں نے خیرہ کیا تھا، تو کیا پچھلوں کے سینوں میں برق کی قوتوں ، اسٹیم کی طاقتوں ، پٹرول کی توانائیوں نے چکا چوند نہیں لگائی ہے، بزرگوں کے کارناموں، سورمائوں کی اولوالعزمیوں نے اگر پہلوں کو ان بزرگوں کے پتھر کی کھودی ہوئی مورتیوں کے آگے جھکایا تھا تو پچھلوں کے لیڈروں، زعیموں، قائدوں کے کاموں نے ان کے اسٹیچو اور فوٹو کے ساتھ ان کی ساری قومی عزت و فلاح کو وابستہ نہیں کیا ہے؟
پرانوں کے دیوتائوں کی گنتیوں کو سن کر تم قہقہے لگا تے ہو ہنستے ہو، جب سنایا جاتا ہے کہ احمق ہندوستان خالق سے ٹوٹ کر چالیس کروڑ دیوتائوں اور معبودوں کے ساتھ جکڑا ہوا تھا مگر کوئی ہوتا جو ان نت نئے دیوتائوں کی فہرست بناتا جن کے ساتھ فرزانہ و دانا یورپ کی روح اسی طرح خالق سے بیگانہ ہو کر ڈوبی ہوئی ہے۔ آخر بتایا جائے ان دونوں نئے اور پرانے