اورشاید کہ اس ہستی ٔمبارک کے اسی غیر منقطع ارتقائی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ اس کے بعد نبوت کا یہ دعویٰ دُور از کار ہے۔ اس دعوے کا ہر مدعی فالتو اور زمین کی پشت کا بالکل غیر ضروری بار ٹھہرایا گیاہے، چھٹی صدی کے بعد زمانہ کے ہر حصہ میں ٹھہرایا گیا، دنیا کے ہر خطہ میں ٹھہرایا گیا۔
اور جن بد بختوں کے دل میں کبھی اس منصب کی جھوٹی ہوک اٹھتی ہے یا اٹھوائی جاتی ہے تم دیکھو خلافِ دستور بنی آدم کتنی بدسلوکیوں کے ساتھ آخر وقت تک اس کو دردراتے دھتکارتے رہے۔ اٹھنے کو تو یہ اٹھ جاتے ہیں لیکن چند مغالطی پینتروں کے بعدان کو خود یہ محسوس ہوتا ہے کہ ا ن کے لیے دنیا میں کوئی کام نہیں، بنی آدم کی بستیوں میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ، پھر یوں ہی بازاری بیروزگاروں کی طرح بالآخر سرگردانی کے ساتھ بھٹکتے بھٹکاتے بہ ہزارِ حسرت و ناکام نامرادی کے گڑھوں میں ہمیشہ کے لیے مدفون ہو گئے۔ تاریخ اس کی شاہد ہے کہ بو الہوسیوں کے بھپاروں سے بے چین و مدہوش ہو ہو کر اگر کوئی نبوت کا نام لے کر کبھی اٹھا بھی تو قدرت کے انہیں ہاتھوں نے جلتی گھانس کے خاکستر کے مانند اس کووہیں بٹھا دیا۔ چودہ سو سال کا یہ تجرباتی مشاہدہ ہے،1 حالاںکہ اس سے پہلے تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ چا ر پانچ سو سال کے اندر کوئی نبی نہ آیا ہو، اس کی ضرورت نہ پید ا ہوئی ہو۔
اگرچہ کھلے کھلے صاف غیر مبہم لفظوں میں بار بار اس کی منادی بھی کر دی گئی تھی اور نبوت و رسالت کے سلسلہ میں یہ پہلی منادی تھی کہ اب آسمان کا پیغام لے کر زمین والوں کے پاس کوئی نہیں آئے گا، یہی وجہ ہے کہ ختمِ نبوت کی اس سنگین مہرسے جو بھی ٹکراتا ہے وہی پاش پاش ہو جاتا ہے اور قدرت کی چٹان پر سر مارنے کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔
بالفرض اگر یہ اعلان نہ بھی ہوتا جب بھی آخر دنیا کیا کرتی؟ آنے والے تو ہمیشہ اُس وقت آتے ہیں، اُن میں آتے ہیں جب جانے والا جا ہی چکے ، لیکن ایسا آنے والا جو اس شان کے ساتھ آیا کہ بجائے جانے کے وہ آگے ہی بڑھتا رہا بڑھ رہا ہے، گنجایش ہی کیا ہے کہ اس کی جگہ دوسرا آئے؟
جس طرح و ہ بھیجا گیا، جن صفات وکمالات کے ساتھ بھیجا گیا، اسی شان ، اسی آن کے ساتھ چمکتے ہوئے آفتاب اور دمکتے ہوئے سورج کے مانند ہم میں وہ اس طرح موجود ہے، ہر جگہ موجود ہے ، ہر خطہ میں موجود ہے، اس کا وجود مغرب میں بھی اسی طرح نمایا ں ہے جس طرح مشرق میں، وہ آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، شاہوں کے قصور اور غریبوں کے قلب ہائے د یجور دونوں کو روشنی بانٹ رہا ہے اور یکسانی کے ساتھ بانٹ رہا ہے، وہ سب کے لیے برابر ہے، سب کے لیے یکساں ہے، وہ فضا میں بھری ہوئی ہوا ہے جس میں سب سانس لیتے ہیں اور وسعت کون و مکان کا و ہ نور ہے جس میں سب چلتے ہیں، پلتے ہیں ، پھولتے ہیں، پھلتے ہیں، یقینا اس کی ضرورت جتنی چھٹی صدی کے باشندوں کو تھی اتنی ہی ضرورت اس