تکذیب نہیںبلکہ سب کی تصدیق، سب کی تصحیح، سب کی تکمیل، عملی شکل میں ممکن ہوکہ وہ مکذب نہیں بلکہ مصدق تھا اور یہی اس کے دعویٰ کا سب سے بڑا امتیازی نشان ہے۔
ہندو مذہب تو وثنیت کی شکل میں مکہ ہی میں موجود تھا، مدینہ آنے کے بعد اس کے آگے دنیا کا دوسرا عالمگیر مذہب یہودیت بھی سامنے آگیا۔ اس کے ساتھ خود مدینہ میں وہ نصرانیت بھی موجود تھی جس کے زیرِ اثر دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ اُس وقت بھی تھا اور اِس وقت بھی ہے۔ اس کے حلقہ میںمجوسی اور ایران کے آتش پرست زردشتی بھی شریک تھے،1 اور اردگرد میں ایک فرقہ صائبوں کا بھی تھا جس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عرب کے صابیوں کا تعلق بودھ مذہب کے سادھوؤں سے تھا یا ان کے سوا کوئی اور فرقہ تھا جسے دنیا اب نہیں جانتی ہے؟2
الغرض کوہستان کی اس چھوٹی سے بستی میں یہودیت، عیسایت، ہندویت یا وثنیت، مجوسیت اور چاہو توکہہ سکتے ہو کہ بودھیت اپنے تمام مفاسد کے ساتھ موجود تھے جن کے دھونے اور جن سے پاک کرنے کے لیے وہ اٹھایا گیا تھا۔ پس اس نے ان سب کو دھویا، ان سب کو پاک کیا صاف کیا، جس میں جو کمی تھی سب کو پورا کیا اور قیامت تک کے لیے پورا کیا۔
اور جس طرح دنیا کے ہر مذہب کے مردوں میں قدرت نے اس کو کچھ لوگ دئیے، دیکھو کہ قریب قریب کچھ اس طرح سے زندگی کے آخری دنوں میں تقریباً دنیا کے ان تمام بڑے مذاہب کی عورتوں میں سے ایک ایک نمائندہ اس کی خدمت میں قدرت کی ہی جانب سے حاضر کی جاتی ہے۔ عورتیں اس کی خدمت میں اگر عورتوں کی حیثیت سے آتیں تو کیا وجہ تھی کہ جب مکہ میں ہر قسم کی یہی عورتیں اس کے آگے پیش کی گئیں تو اس بزرگ خاتون کے مقابلے میں جو عمر میں ان سے پندرہ سال بڑی تھیں، پچاس سال کی عمر تک کسی کوپسند نہیں کیا؟ پچیس سال کی جوانی سے پچاس سال کی عمر تک میں کون نہیں جانتا کہ بجز حضرت خدیجہؓ کے آپ نے کسی سے نکاح نہیں فرمایا جو نکاح کے وقت چالیس سال کی ہو چکی تھیں اور اس سے پیشتر ان کے دو شوہروں کا انتقال ہو چکا تھا۔ جو عورت کو عورت کی حیثیت سے اپنے گھر لاتا ہے کیا چالیس سال کی بیوہ کے ساتھ پچاس سال کی پوری زندگی گزار سکتا ہے؟ 1
ہاں! جب سب کچھ ہوچکا دل کا بھی تجربہ ختم ہو چکا دماغ کے تجربات بھی دنیا کے سامنے آچکے ، قتل و خون، فتنہ و فساد کا متلاطم سمندر ملکِ عرب امن وامان، راحت و آسایش کی چھائوں کے نیچے زندگی کی قیمت حاصل کرنے لگا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر چہ عرب کا اکثر حصہ ہمیشہ سے کسی غیر عرب کا محکوم نہ تھا لیکن باہم ان میں بڑوں نے چھوٹوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا اور پھر سب مل کر وہمی مخلوقات کی غلامی کی رسیوں میں گھسیٹ رہے تھے اس غلامی سے ان کو حقیقی آزادی میسر آئی۔ انسانیت اپنے فطری مقام سے ہٹ کر موچ کھائی ہوئی ہڈی کے مانند بے چین تھی بے کل تھی۔ پھر اس