موٹروں کے نیچے سے روزانہ اٹھائے جاتے ہیں یا ہندوستان کی معمولی جھڑپوں میں لاشوں کی جو فہرست تیار ہوتی ہے، بلکہ کل لے دے کے سب کی کل تعداد ایک ہزار آٹھ سو ہے۔ یہ ہے خونی پیغمبر کا بہایا ہوا خون یا قصابوں کی وہ دکان جس کے شور سے گنبد گردان بھی تھرا اٹھا ہے، غیر تو غیر اپنے بھی پریشان ہیں۔
اُف! برکندہ باد آنکھوں سے بداندیشوں کو صرف وہیں خون نظر آیا جہاں سے انسانیت کی مردہ لاش میں زندگی کا خون دوڑایا گیا۔ جہاں موت ہے مردوں کو، دل کے مردوں کو وہاں زندگی نظر آرہی ہے اور جہاں سے صرف زندگی بنٹ رہی ہے، انصاف کرنے والوں نے کیسا انصاف کیا کہ موت کی وادی کے نام سے انہوں نے دنیا میں اس کا پروپیگنڈہ کیا! ایک ہزار آٹھ سو تعداد تواس وقت ہے جب اس میں بلاو جہ بنی قریظہ1 کے ان یہودیوں کو بھی شریک کر لیا جائے جن کو خود ان کی کتاب اور ان کی شریعت نے ان ہی کی مرضی سے اپنے ہی قانون کے رو سے اس وقت ناپید کیا جب سمجھا گیا کہ اس چھوٹی سی جماعت کی زندگی سے سارے عرب بلکہ ممکن ہے کہ عرب کے اطراف کی بڑی جماعت کی موت پیدا ہو گی۔ آخر جب کروڑوں مقتولوں والی عالمگیر جنگ کی آگ یہودی پھونک کی سلگائی ہوئی مانی جاتی ہے2 تو اگر ان ہی یہودیوں کے متعلق یہ سمجھا گیا تو کیا غلط سمجھا گیا؟ اور صرف یہی نہیں اسی ایک ہزار آٹھ سو میں بے چارے ان شہید معلّموں کو بھی شمار کر لیا گیا ہے جن کو نجد والے اپنے ملک میں وعظ و تلقین، تعلیم و تذکیر کے لیے لے گئے اور معونہ نامی کنویں پر ستر آدمیوں کو شہید کردیا۔ ان ہی میں وہ دس مبلغ بھی ہیں جنہیں بے دردی کے ساتھ بلاوجہ رجیع کے مقام پر ذبح کر دیا گیا۔3 یہ تو مسلمانوں کی طرف کے شہداہوئے۔ اسی طرح فریق ِثانی کے مقتولوں کو اسی تعداد میں شریک کر لیا گیا جو بجر مِ قصاص یا ڈاکہ یا چوری مارے گئے یا گرفتاری کے سلسلہ میں قتل ہوئے۔ لوگ سوچتے نہیں ورنہ دس سال کی اس طویل مدت میں اگر جنگ کا اطلاق کسی معرکہ یا مہم پر ہو سکتا ہے تو وہ بدرہے جس میں بائیس مسلمانوں اور ستر قریش کے، اسی طرح احد میں ستر مسلمانوں اور تیس قریشیوں کے آدمی کام آئے، بشر طے کہ ہزار پندرہ سو آدمیوں کے مجمع اور ان کی باہمی آویزش کا نام بجائے جھڑپ کے جنگ اور (بیٹل ) رکھا جائے۔
بہر حال قریشیوں سے جو کچھ چھیڑ چھاڑ ہوئی وہ اسی پر ختم ہو گئی۔ نہ خندق میں بازارِ قتال گرم ہوا نہ مکہ میں خونریزی ہوئی۔ اس کے بعد ایک دو معرکے یہودیوں سے ہوئے جن میں خیبر سب سے اہم ہے اس میں اٹھارہ مسلمان شہید اور ترانوے یہودی مارے گئے۔ عیسائیوں سے موتہ میں گھمسان کی لڑائی ہوئی، لیکن اس گھمسان میں بھی کل مسلمانوں کے بارہ شہیدوں کا حال معلوم ہوا۔ اس کے سوا کچھ ڈاکوئوں کا تعاقب ہے، چوروں کا پیچھاکیاگیا، باغیوں کی سرکوبی کے لیے کوئی دستہ روانہ کیا گیاجس میں اکثر مواقع میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی، بہر حال اگر خالص لڑائی اور جہاد کے شہیدوں اور