ہیںکہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے بھلا ہم ایسا کہاں سے پائیں؟ قسم خدا کی! ہم اس کو نہیں مان سکتے، ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
دیکھو ابو جہل کا مشہور تاریخی اقرار۔ کیا اس کاا قرار نہیں ہے کہ اپنے جہل اور ہٹ دھرمی کی تہ میں بڑائی اور علوکے خمار کے سوا وہ خود بھی کچھ نہیں پاتا تھا؟
اورجہاں بعضوں میں یہ تھا، کچھ ایسے بھی تھے جن میں جاننے کے بعد اوہام و وساوس کے بھپارے اٹھ اٹھ کر ان کو ماننے سے روک لیتے تھے۔
آخر سادہ لوحوں کا وہ گروہ جن تکذیب کرنے والوں کی یہ تصدیقیں مسرت کے ساتھ سنایا کرتا ہے جن کو ہم مانتے ہیں، ان کے متعلق کا رلائل بھی یہ جانتا تھا:
’’ وہ زندگی کا ایک جگمگاتا ہو انور1 تھا جسے قدرت نے اپنے سینے سے پھاڑ کر دنیا کو روشن کرنے لیے چمکا یا تھا۔ وہ جو جہاں کے پیدا کرنے والے کے حکم سے جہان کو روشن کرنے کے لیے آیا تھا۔ موجودات کا عظیم مینار، ہیبت ناک مگر تابناک راز اس کی آنکھوں کے سامنے چمک اٹھا، اس کی اپنی روح کو جو خدا کی الہامی قوت اس کے اندر موجود تھی اُس نے اِس کو جواب دیا۔‘‘
اور کوئی آرتھر نامی ڈاکٹر بھی اس کواس قدر پہچانتا تھا:
’’محمد صاحب گہرے سے گہرے معنوں میں ہر زمانہ کے لیے ہر حیثیت سے سچے سے سچے، زیادہ سے زیادہ صداقت رکھنے والی روحوں میں سے تھے۔ وہ صرف عظیم اور برتر آدمی نہ تھے، بلکہ بنی نوع انسان میں جو بڑے بڑے یعنی سچے سے سچے آدمی کبھی پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک تھے۔‘‘
اتنا جاننے کے بعد اتنا پہچاننے کے بعد خود ہی بتائو کہ انہوں نے اس کو مانا کیوں نہیں جو ان کے ماننے کے لیے بھی آیا تھا جس طرح دوسروں کے لیے اس کا ماننا ضروری تھا؟
مگر نہیں جس قدر انہوں نے جانا تھا اگر اسی پر قائم رہتے تو ماننے پر وہ پھر مضطر ہو جاتے جیسا کہ ماننے والے مضطر ہوئے، لیکن وہ علم کے نشان زدہ حدود پر نہیں ٹھہر ے، علم کے ساتھ انہوں نے وہم کو شریک کیا، وہم نے ان کو ظلم کے کنارے پر لا کر پھسلا دیا، دیکھو وہ محرومی کے گڑھوں میں منہ کے بل گرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جانا مگر جاننے کے بعد ظلم کے اندھیرے نے ان بد بختوں کو ماننے سے محروم رکھا۔ انہوں نے وسوسہ پکایا اور بولے کیا ضرور ہے کہ جس کا دل ایسا ہے اس کا دماغ بھی ایسا ہو؟
جن کے سامنے مکہ بھی گزر چکا اور مکہ میں جو کچھ گزرا وہ بھی گزر چکا، مدینہ بھی گزرچکا اور مدینہ میں جو کچھ گزرا وہ بھی