گھسیٹ سکتا تھا کہ جس طرح اس کے شہر والے بلکہ گھر والے اپنی امارت سے غریبوں کی غربت میں اضافہ کر رہے تھے2 یا دولت کے اس آئینہ میں بد مستیوں کا تماشا کر رہے تھے۔ ان سب مشاہدات کے بعد انہوں نے حرا کے دعویٰ کی جانچ کے لیے جو کچھ کرنا چاہا، کرتے رہے، بغیر کسی وقفہ کے دس گیارہ سال تک کرتے رہے، انہوں نے دے کر دیکھا لے کر دیکھا، جن جن شکلوں میں جن جن صورتوں کے ساتھ چاہا بغیر کسی روک ٹوک کے دیکھا، رگ رگ کو الگ کر کے دیکھا، ریشہ ریشہ کو جدا کر کے دیکھا، اس نے اپنے اندر کو باہر نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا وہ اس کو ٹٹولتے رہے، دلتے رہے، مسلتے رہے ، گھستے رہے، رگڑتے رہے، مگر تجربات کے اس عریض و طویل سلسلہ کے بعد بھی ان کو ، ان میں ہر ایک کو، اس کے باطن میں کیا ہمیشہ وہی نہیں ملا جو وہ ظاہر کرتا تھا؟ بلاشبہ جب اس کو دیا گیا تب بھی وہ سچ تھا اور اس سے جب لیا گیا تب بھی وہ سچ ہی تھا۔
یقینا اس سے زیادہ جانچا نہیں جا سکتا جتنا انہوں نے جانچا، اس سے زیادہ جانا نہیں جاسکتا جتنا انہوں نے جانا۔
پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جنہوں نے بعد کو مانا اس وقت انہوں نے کیوں نہیں مانا؟ آدمی کے دل کی سرشت انسانی قلب کی فطرت یہی ہے اور ہمیشہ رہے گی، لیکن اسی کے ساتھ شاید اس پر غور نہیں کیا گیا جو جانتا ہے وہی مانتا ہے۔ پھر جس نے نہ جانا اگر اس نے نہ مانا تو اس نے کس کا انکار کیا؟ بلاشبہ ان کے دلوں نے جانا تھا پھر اگر انکی زبانوں نے نہ ماناتو یہ کیسے سمجھ لیا گیا کہ دلوں نے بھی نہ مانا تھا؟
’’کیازبان دل ہے یا دل زبان ہے؟‘‘ کاش ایسا ہوتا، لیکن دنیا میں پھر جھوٹ کا گھونسلا کہاں بنے گا؟
ظلم کے نشہ میں جب مخمور ہو، علو کے مواد فاسد سے جب معمور ہو، ماننے والے دل کا جب یہ حال ہوتا ہے تو میرا نہیں دلوں کے بنانے والے کا بیان ہے کہ اس وقت دل مانتا ہے اور زبان انکار کرتی ہے۔
ان کے دلوں نے اس کو مانا تھا، مکہ والوں نے جانا تھا۔ ان کے دلوں نے اس کو قطعاً مانا تھا، مگر جو بڑا ہے اور بڑا ہی رہے گا، اور جو چھوٹا ہے اس کے سامنے بڑا اپنی بڑائی سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ علو اور سربلندی کے اس نشہ پر ابھی کوئی ترشی نچوڑی نہیں گئی تھی، اگرچہ قریب ہے کہ نچوڑی جائے پھر اگر بدمستی کے اس عالم میں ان کی زبانیں لڑکھڑا لڑکھڑا کر ان کے دلوں سے ٹکراتی تھیں تو پندار کے متوالوں کو کب اس بد حالی میں نہیں پایا گیا ہے؟
تنازعنا نحن و بنو عبد مناف، أطعموا فأطعمنا، حملوا فحملنا، أعطوا فأعطینا، حتی إذا تحاذینا علی الرکب وکنا کفرسي رھان قالوا: منا نبي یأتیہ الوحي من السماء۔ فمتی ندرک مثل ھذہ؟ واﷲ لا نؤمن بہ أبدا ولا نصدقہ۔
ہم میں اور عبد مناف کے لڑکوں میں مقابلہ ہوا، انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلایا، انہوں نے سوار کرایا تو ہم نے بھی سوار کرایا، انہوں نے دیا تو ہم نے بھی دیا، پھر جب ہم نے ان کے کندھے سے کندھ ملا لیا اور گھڑ دوڑ کے میدان کے دو برابر گھوڑوں کے مانند ہو گئے تو اب عبد مناف والے کہتے