کیا وہ امیر تھے؟ باہمی خانہ جنگیوں سے یہ برباد تھے تو کیا وہ آباد تھے؟ بہر حال یہ چھ آدمی تھے، ان کا گھر وہاں تھا جس کا زمین کے چالیس پچاس یا ساٹھ ستر کروڑ دلوں میں آج گھر ہے، اور کیسا مضبوط اور کیسا مستحکم گھر ہے۔ ( نورھا اﷲ تعالیٰ وحماھا)
نصرت و امداد کی آواز ان ہی کی زبانوں کی پہلی آواز تھی جو بغض و عداوت کے دہ سالہ مسلسل شور و ہنگامے کے بعد ان چھ آدمیوں کے دل سے نکلی ہے۔ تاریخ نے اس کو نوٹ کر لیا اور ابد تک کے لیے جریدئہ عالم پر ان کانام انصار ثبت کر دیا گیا۔
الغرض جو حرکت غیب میں پیدا ہوئی تھی آج شہادت میں آگئی۔ اب یہ بڑھے گی، چڑھے گی، چڑھتی چلی جائے گی، اس کے نیچے انسان بھی آئیں گے، حیوان بھی آئیں گے، جمادات بھی آئیں گے، الغرض و ہ سب آئیں گے جو آسکتے ہیں اور قطعاً آئیں گے، مگر جو آگے تھے وہ پیچھے ہوں اور جو پیچھے ہیں وہ آگے ہوں، ذرا اس صفت کی ترتیب قائم ہونے دو پھر دیکھنا جو کچھ دکھایا جائے اور سننا جو کچھ سنایا جائے۔
میں کہتا آرہا ہوں کہ ماننے سے وہ گریز نہیں کرتا جس نے جان لیا۔ جس ہوا میں خوشبو بس چکی ہے اس کے سونگھنے کے بعد کوئی اس خوشبو کے ماننے سے انکار کر سکتاہے؟ یہ الگ بات ہے کہ کسی میں سونگھنے کی قوت ہی نہ ہو، لیکن جس کا شامہ مائوف نہیں ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ا س ہوا میں خوشبو نہیں ہے یا وہ بدبو ہے؟
پھر جس میں سچائی کے احساس کا حاسہ موجود ہے، جب سچ کو اس کا یہ حاسہ نگل چکا اب اس کے بعد اسی سچ کے اگلنے کی کیا صورت ہے؟ جو اپنے اندر بھوک کو پا چکا کیا ممکن ہے کہ اس کے پانے کو وہ جھٹلائے؟ زبان سے ممکن ہے، لیکن دل سے کیسے جھٹلا سکتا ہے؟
پھر جب مکہ والوں نے جس کو دیکھا، اس وقت جس کو دیکھا، اس وقت سے دیکھا جب وہ ان میں بے باپ کا ہوا، بے ماں کا ہوا۔ انہوں نے ا س کو جانا ، اس وقت سے جاناجب شہر کی صبح کو بیاباں میں چوپایوں کے ساتھ گزار کر شام کرتا تھا۔ انہوں نے اس کا تجربہ کیا اور اس وقت سے تجربہ کیا جب وہ اندر سے صرف امانت کی شعاعیں اور صداقت کی کرنیں ان کے اندر مسلسل جذب کر رہا تھا۔ اس عجیب نظارہ کے وہی گواہ تھے،1 جب انہی کے آگے مکہ کا سب سے بڑا غریب، حجاز کا سب سے بڑا امیر کر دیا گیا، لیکن ان ہی کے سامنے اس امیر نے ۱۔صلہ رحمی ۲۔ حملِ کل ۳۔کسبِ معدوم ۴۔قری ضیف ۵۔اعانت علی نوائب الحق1 کے بہتے ہوئے دھاروں میں سب کچھ بہا کر اپنے کو غریب کر لیا تھا اور ایسا غریب کر لیا تھا کہ ’’ اس کے پاس سفر کے لیے گدھا بھی نہیں‘‘کے ساتھ اس کے ہم عصر امیروں نے ٹھٹھا کیا، حالاںکہ چاہتا تو اس گنج سے گنج اسی طرح