کا وہ قدوسی وجود2 جو روحانیوں کا سردار ہے اور شاید جو دائرہ ملکوت کا نقطۂ پرکار ہے وہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ملأ ادنیٰ کے فرشتے ملک الجبال کی تسخیر کی بشارت سنائی جاتی ہے اور کیسی تسخیر جبرائیل امین عرض کرتے ہیں:
’’یہ پہاڑ کا فرشتہ ہے آپ جو حکم دیجیے اس کو حکم دیجیے وہ بجا لائے گا۔ ‘‘
پہاڑ کا فرشتہ حوالہ کر دیا گیا جس کے سلام کے جواب میں بازارِ طائف کے چھچھورے تک پتھر پھینکتے تھے ردِ عمل کی پوری قوت کا اندازہ کرو، خود فرماتے ہیں:
’’اس پہاڑ کے فرشتے نے مجھے سلام کیا۔‘‘
سلام عرض کر کے جو مسخر کیا گیا تھا فرمان طلب کرتا ہے :
یَا مُحَمَّدُ! ذَلِکَ لَکَ۔
اے محمد(ﷺ)! آپ کو پور ا اختیار ہے۔
کس امر کا اختیار ہے؟اُف جنہوں نے سنگریزوں سے مارا تھاپہاڑ کا فرشتہ اجازت طلب کرتا ہے کیا ان پر، طائف کے ان پتھر مارنے والوں پر، ان دونوں پہاڑوں کو جن سے طائف محصور ہے الٹ دوں؟
جس کو ذرائع و وسائل کی قلت کا گلہ تھا اس کے سازو سامان کی فراوانی کا اندازہ کرو! یہ بخاری میں کہا ہے، جس کے گھٹنے توڑے گئے، ٹخنے چورے گئے، اب اس کے قابو میں کیا نہیں ہے؟ اور جو اختیار دیا گیاکیا وہ پھر چھینا گیا؟
اس کے بعد اگر میں کبھی کہتا ہوں کہ احد میں دانت ٹوٹے نہیں بلکہ تڑوائے گئے، چہرۂ مبارک زخمی ہوا نہیں بلکہ زخمی کرایا گیا، خندق میں پیٹ پر پتھر بندھے نہیں بلکہ باندھے گئے، الغرض اس کے بعد جو کچھ گزرا میں کیا غلط کہتا ہوں؟ جب لوگوں سے کہتا ہوں کہ گزرے نہیں بلکہ گزارے گئے، مہینوں گھر میں آگ جلی نہیںبلکہ نہ جلوائی گئی، کھانا پکا نہیں بلکہ نہ پکوایا گیا۔
’’مجھے مسکین ہی زندہ رکھ! مجھے مسکین ہی مار! اور مسکینوں ہی کے ساتھ اٹھا !‘‘
کیا اس آرزو کی ہر کلیجہ میں قوت ہے؟ کس کا جگر ہے جو یہ کہہ سکتا ہے ؟لیکن جن کو سب کچھ مل جاتا ہے اپنے لیے نہیں غیروں کے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔ نعمت والے تو اپنی نعمتوں سے خوش ہیں، لیکن مصیبت زدوں کی تسلی تو صرف اسی کی ذات سے ہو سکتی ہے جس کے پاس سب کچھ ہو سکتا تھا، لیکن صرف اسی لیے کہ جن کے پاس کچھ نہیں ہے ان کے آنسو تھمیںاس نے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ ’’موطا امام مالک‘‘ کی اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ ’’میرے مصائب ہر مسلمان کی تعزیت کریں گے۔‘‘ 1
سوچنا چاہیے کہ مصیبت کی کون سی ایسی قسم ہے جو اس وجودِ اطہر پر نہ گزری جو دنیا والوں کے لیے اُسوہ اورنمونہ بنا کر بھیجا