وجود ہی کے اندر نیل و فرات کو بھی اور تسنیم و سلسبیل کو بھی نکلتے دیکھا تو غلط کیوں دیکھا؟ جب دودھ پلایا گیاتو أَصَبْتَ الْفِطْرَۃَ کی آواز آئی۔ ایک صفت اگر دوسرے عالم میں دودھ کے رنگ میں دیکھی گئی، تو پھر جھوٹ کی شکل دوسرے دنیا میں اگر پتھر بن جائے، حسد کی شکل بچھو کی ہو، حرص چوہے کی شکل میں دوڑ تا دکھائی دے تو اس پر حیرت کیا ہے؟ یقینا انسان میں دونوں خواہشیں ہیں، حیوانی بھی اور ملکوتی بھی۔ پھر حیوانی خواہشوں پر قابو پانے والوں کو اپنی یہ خواہش کسی حیوان ہی کے بھیس میں نظر آئے تو اس میں حیرت کیا ہے؟ وہ سفید ہو، براق ہو، برق رفتار ہو، اتنا برق رفتار ہو کہ جہاں اس کی نظر پہنچتی ہو وہیں اپنے قدم رکھتا ہو، وہ گھوڑوں جیسا بے ڈول لمبا نہ ہو، گدھوں جیسا ذلیل پست نہ ہو، معتدل ہو، موزوں قامت ہو، سب کچھ ہو، لیکن رہے گا وہ حیوان ہی۔ کیا کیا جائے بڑی نشانیاں یا آیاتِ کبریٰ1کا سیّاح چھوٹی نشانیوں یا صغریٰ آیات کے اندر رہنے والوں کو کس طرح سمجھا ئے کہ وہ کہاں کہاں گیا؟ کب گیا؟ کس طرح گیا؟
اس بہرے کو جو نور کے عالم کی سیر کر چکا تھا، جب آواز کی اس دنیا میں چلنے کے لیے کہا گیا جو موروں کی جھنکاروں، شیروں کی ڈکاروں، چڑیوں کے چہچہوں، چکوروں کے قہقہوں سے معمور تھی تو اس نے پوچھا کہ آواز کی دنیا کتنی دور، کس پر، کتنی دیر میں پہنچا جا سکتا ہے؟ حالاںکہ کان کا پردہ اٹھا اور یہ سارے سوالات کا فور تھے۔ جس کے صدر کا شرح ہوا، جس کا سینہ کھولا گیا، جس کے ظاہری حواس کے ساتھ باطنی احساسات بھی جگا دیے گئے لوگ اس کو سن کر پریشان کیوں ہوتے ہیں! حالاںکہ جن کے لطائف و اسرار صاف ہیں اور ان لطائف کو تو تقریباً ہر شخص صاف کر سکتا ہے، ان سے اگر پوچھا جاتا تو اس کی تصدیق کرتے۔
اور بات یہ ہے کہ جو کچھ دکھایا جانے والا تھا کیا ہوااگر کسی خاص شان میں وہ کچھ دن پہلے دکھایا گیا؟ ہزارہا پیغمبروں سے کل آٹھ پیغمبروں اور ان میں بھی آدم سے شروع کر کے معمارِ کعبہ حضرت ابراہیم ؑ کی زیارت پر اُس شخص کی ملاقات کیوں ختم ہو گئی جو آدم کی طرح اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچا اور جب مکہ فتح ہو گیا اس کا کام بھی ختم ہو گیا، جس نے دیکھا اور جنہیں دکھایا گیا دونوں کی زندگیوں پر غور کرو نظر آئے گا کہ جو ہونے والا تھا وہ کسی رنگ میں اس وقت ہو رہا تھا،1 حالاںکہ ان ہی واقعات کے سلسلہ میں جب صرف زندگی نہیں بلکہ امانتِ کبریٰ کی زندگی اقصیٰ کی مسجد میں دکھائی گئی، تو اس وقت آٹھ ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے پیغمبر اس امام کے پیچھے کھڑے نظر آئے جو نوع ِانسان کا سب سے بڑا امام ہے۔ اللّٰہم صل علیہ وسلم۔
اور سچ یہ ہے کہ جس کو سچا مانا گیا اس کے ہر ہرسچ پردلوں میں شک کا ابھار یقین کرو کہ اس ماننے کا بدا ہتاًانکار اور اس ایمان سے یہ قطعاً ارتداد ہے۔ مرتد ہوا جس نے انکار کیا اور صدیق ٹھہرا جس نے اقرار کیا۔ اُف! میں بہت دور نکل گیا، لیکن