جاتے تھے، ان سب علاقوں میں، خطوں میں، بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ملکوں میں بھی، ان ہی راہوں سے ان کا نام اونچا ہو چکا تھا۔ جاہ کے لیے اس وقت جو کچھ سوچا جا سکتا تھا یقینا وہ سب اس کو حاصل ہو چکا تھا اور مالی بڑائی میں جس کنگرہ پر اس کی برتری کا پھر یرہ اڑرہا تھا اس کا تماشا تم کر چکے ہو۔
پس جو چیز اسے محلوں میں مل چکی تھی کتنی بڑی بے ایمانی اور کیسی گندی اور سیاہ کو رباطنی، بے بنیاد بداندیشی ہو گی کہ اسی کا بہتان اس پر لگایا جائے۔ جب وہ ہفتوں عشروں غاروں میں دن ہی نہیں بلکہ ڈرائونی اور بھیانک راتیں گزارتا تھا،سانپوں اور بچھوئوں، درندوں اور موذیوں سے بھرے ہوئے پہاڑوں اور ٹاپوں میں اس کو ان ہی چیزوں کے لیے جانے کی کیا ضرورت تھی جو مخملی طنفسوں1، ریشمی قالینوں ، عبقری گدوں، مرزکش چھپر کھٹوں پر بے فکر و تردد اگر وہ چاہتا توبہ آسانی یوں بھی مل سکتی تھی، اوروہ تو ملی ہوئی تھی، لیکن اس نے بجائے ایرانی زرابی، رومی نما رق کے زمین اور کھلی زمین کے پتھر یلے فرش کو اپنابچھونا اور خاراپتھروں کو اپنا تکیہ بنایا۔
بی بی کی عصمت کا پتہ بے چارگی میں نہیں چلتا، چارہ ہو اور عصمت ہوعصمت اسی کا نام ہے۔ خاک کے فرش کے سوا جس کے پاس کوئی فرش نہیں وہ اگر خاک پر سویا تو کیا خاک سویا؟ جو تخت پر سو سکتا ہے وہ مٹی پر سویا اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کھوٹ نہیں ہے۔ اور یہ تو اس امتحان گاہ کی جس میں اب وہ اتارا جاتا ہے پہلی منزل ہے،جانچنے والے جانچ لیں، پرکھنے والے پرکھ لیں اور جس طرح سے جن جن امکانی شکلوں سے چاہیں جو کچھ اس کے اندر ہے اس کو باہر لانے کی کوششیں کریں۔
اپنے معیاروں کو لے کر آئو! اپنی اپنی کسوٹیوںکولے کر دوڑو! کَسو! کَس کر دیکھو کہ جس کو قدرت کے ہاتھوں سے خالص اور آلائشوں سے قطعاً پاک بالکل صاف پیدا کیا، صداقت و راستی، امانت و اخلاص کے سوا اس میں کوئی اور چیز بھی ہے؟ خوب کف گیریں مار مار کر دیکھو! کیا اس دیگ میں کوئی چاول کچا ہے ؟ روشنی کی جو کرنیں اس کے اندر سے پھوٹ پھوٹ کر دنیا کو جگمگا رہی ہیں گھورو! آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورو! خوردبینوں کو آنکھوںپر چڑھا چڑھا کر گھورو!تاریکی کا اس میں کوئی ریشہ ہے؟
نبی مان لینے کے بعد کسی کی ہمت تھی اس قدوسی سرشت کے امتحان کا اندیشہ بھی کرتا؟ یہی مصلحت تھی کہ ایک مہینہ نہیں، دو مہینے نہیں، سال دوسال بھی نہیں، بلکہ تم میں کون نہیں جانتا ہے کہ مکی زندگی کے پورے تیرہ سال اس حال میں اس کو گزارنے پڑے کہ گویا اس کو کوئی نہیں جانے گا؟ گویا اس میں کوئی نہیں مانے گا؟ حالاںکہ پھر اسی کو نہیں بلکہ اس کے ان کفش برداروں نے تقریباً اسی بارہ تیرہ سال کی مدت میں صرف جزیرۃ العرب ہی نہیں بلکہ مشرق و مغرب، ایشیا و