مبارک ہیں وہ تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری حمد کرتے ہیں، وہ بکہ سے گزرتے ہوئے ایک کنواں بناتے ہوئے۔ (زبورباب ۱۸)
قرآن نے اگر مکہ ہی کا نام بکہ بتایا تو تم کو اطمینان نہیں ہوا، لیکن جب قرآن کے مشہور دشمن مارگولیوتھ نے بھی گواہی دی کہ زبور کا یہ بکہ عرب کے مکہ کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہو سکتی1 تو منکر اب کیوں چپ ہیں؟حالاںکہ جس کے باپ نے بیابان میں اپنی بانسری بجائی تھی اس کے بیٹے سلیمان ؑ نے اپنے شاہی تخت پر اس کے آگے سر بھی جھکا یا تھا، اشاروں کنایوں میں نہیں علانیہ نام لے کر اپنے دل کی اس لگن کاا ظہار ان لفظوں میں فرمایا:
وہ خلومحمد یم زہ ودسی زہ رعی۔ (تسبیحات سلیمان پ ۵:۱۲)
وہ ٹھیک محمد( ﷺ)ہیں۔ وہ میرے محبو ب ہیں ،میری جان۔
اور کیا اس کے لیے اس کے گھر کے لیے صرف حضرت دائود سلیمان ؑ ہی تڑپے؟
بیابان (عرب) اور اس کی بستیاں قیدار (بن اسماعیل) کے آباد گائوں اپنی آواز بلند کریں گے، سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے، پہاڑیوں کی چوٹیوں سے للکاریں گے، وہ خداوند کا جلال ظاہر کریںگے۔ (یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۴۲)
سچ کو جھوٹ بنانے کے لیے تم پہاڑوں کو مٹانہیں سکتے۔ مدینہ منورہ کے ہر بچے سے اب بھی پوچھ سکتے ہو کہ وہ اپنی بکریوں کے لیے گھاس کس پہاڑ کے دامن سے لاتے تھے؟ 2
جب آنے والا مکہ سے مدینہ آرہاتھا اور جس کو حبقو ق نبی نے دیکھ کر صدیوں پہلے اس طرح خوشی کا نعرہ مارا:
’’اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہِ فاران سے آیا اور اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا، زمین احمد کی حمد سے بھر گئی۔‘‘ (کتاب نبی مذکور باب ۳)
اور یسعیاہ نبی اپنے جوش بیان میں اس کا غلغلہ اس طرح بلند کر رہے تھے:
’’عرب کے صحرا میں رات کاٹو گے، اے ودانیو کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آئو، اے تیماء کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کر بھاگنے والوں کو ملنے آئو، کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے سے، ننگی تلواروں ، کھنچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں‘‘۔ (یسعیاہ باب ۲۱)
کیا آنے والے کی اس آمد پر دامن سلع کے باشندے ، مدینہ والے طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَااور اسی قسم کے جن گیتوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر للکار رہے تھے دنیا کی کسی قوم کے حافظہ میں اب وہ گیت محفوظ نہیں ہیں؟ دیکھو! اسی للکاروں سے قید ار کی اولاد (قریش مکہ) کی عظمت بدر کے کنوئیں میں غرق ہوئی۔ کیا ٹھیک تاریخ کی قید کے ساتھ وقوع سے پہلے اور سینکڑوں سال پہلے ہی یسعیاہ پیغمبر یہ کہتے ہوئے چلا نہیں رہے تھے: