’’ٹھیک ایک سال مزدوروں کے ایک سال میں قیدار کی ساری حشمت خاک میںمل جائے گی۔‘‘
اور میں کیا بتائوں کہ ان پیمان وفا باندھنے والوں نے کتنی قوت کے ساتھ اپنے اپنے وعدوں کا ایفا کیا ہے؟ حالانکہ ان کا سب کچھ مٹا دیا گیاہے، لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ کس کی قوت نے ان خاص نوشتوں کو مٹنے سے پچا لیا؟ ملا کی نبی نے سچ فرمایا تھا:
’’وہ خداوند جس کی تلاش میں تم ہو،1 ہاں ! عہد کا رسول جس سے تم خوش ہو، وہ اپنی ہیکل میں ناگہاں آئے گا۔ دیکھو! وہ یقینا آئے گا، رب الافواج فرماتا ہے، پر اس کے آنے کے دن میں کون ٹھہر سکے گا؟ اور جب وہ نمودار ہو گا کون کھڑا رہے گا؟ (ملا کی نبی کی کتاب باب ۳)
جس ہیکل میں وہ ناگہاں آیا، 2 سب جانتے ہیں کہ کسی زمانہ میں اس کے مٹانے پر ایکا کر کے جو عہد نامہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس میں بھی یہی پیش آیا تھا 3 جو ان عہد کرنے والوں کی کتابوں میں پیش آیا، اور کون ہے جو اس کے آگے کھڑا رہتا۔
’’وہ سنار کی آگ دھوبی کے صابون کی طرح ہے۔‘‘ (ملاکی نبی باب ۳)
جو جلنے کے لیے تھاوہ جل گیا۔ وہ جو دھلنے کے لیے تھاوہ دھل گیا۔ اور جو چمکنے اور صاف ہونے کے لیے تھاوہ چمکا اور ستھرا ہوا ،اور باوجود چھپانے کے اب تک چمک رہا ہے۔
خیر بات بہت دور جائے گی اگر اس ضمنی بحث کی تفصیل میں اور آگے بڑھا گیا۔ میرے سامنے تو اس وقت یہ تھا کہ جتنے آنے والے آئے،سب جانے کے لیے آئے اور بینات واضح شہادت کی روشنی میں دیکھا جاچکا ہے کہ جو بھی آیا بالآ خر ایک ایک کر کے کسی نہ کسی طرح خود وہ،ان کی زندگی، ان کی تعلیم جہاں سے طلوع ہوئی تھی وہیں بالآ خر غروب ہو گئی۔ اور بلاشبہ ان کے لیے یہی مقدر تھا، قدرت کے باندھے قانونوں کو دنیا کا کون سازور کھول سکتا ہے؟ پر اب دیکھو کہ وہ آتا ہے جو آنے ہی کے لیے آیا؟کس شان کے ساتھ آیا،کس آن کے ساتھ آیا، مصریوں کی غلامی میں صدیاں بسر کر نے والوں میں نہیںبلکہ جب سے دنیا ہے آدم کے جن گھرانوں کو محکومیت کی لعنت نے کبھی نہیں چھوا، جن کے دماغ میں آزادی کی ہوا کے سوا کبھی کسی قسم کی غلامی کی گندگی نہیں پہنچی اور جیسا ابراہیم ؑسے کہا گیاتھا کہ
’’وہ عربی ہوگا، اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۶۔۲۳)
’’اور اسی لیے وہ اپنی آزادی کو ہر چیز سے مہنگی خیال کرتے ہوئے وہ اپنے سب بھائیوں کے درمیان بودوباش کرے گا۔‘‘ (باب مذکورہ)
بلاشبہ آدم کی ساری اولاد کے درمیان شاید ایک نسل تھی جس نے اپنے ہاتھ کو سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ کو اپنے خلاف رکھ کر ہمیشہ ایسی زندگی بسر کی جو دنیا کے کسی خطہ کے باشندوں کو میسر نہ ہوئی ہو۔ وہ ان ہی آزادوں میں اٹھا اور محسوس قوتوں میں جن چیزوں کا نام قوت رکھا گیا ہے، ایک ایک کے پنجے سے انسانیت کو آزادی دلانے کے دعوے کے