اس رومن کیتھولک پادری کے قلم سے گو مناظر ہ کے جھونک ہی میں سہی لیکن ایک پروٹسٹنٹ عیسائی کو مخاطب کرتے ہوئے کتنے صحیح الفاط نکل آئے ہیں۔
اب میں کسی پروٹسٹنٹ سے پوچھتا ہوں کہ بھلا وہ اپنی نجات کی دلجمعی صرف ایک ایسی کتاب کے بھروسہ پر رکھ سکتا ہے جسے وہ کلامِ الہٰی نہیں ثابت کر سکتا؟ ایک کتاب جسے وہ سمجھ نہیں سکتا، ایک کتاب جسے جُہَلا و ضُعَفا اپنی ہلاکت کے لیے پڑھتے ہیں، ایک کتاب جس کے اکثر حصے کھوئے گئے ہیں، ایک کتاب جو از بس غلطیوں سے بھری گئی اور ناقص کی گئی ہے، جس میں نجات پانے کی سب ضروری چیزیں نہیں ہیں،ایسی کتاب کیا ایمان کا قاعدئہ کلی اور نجات کی مکمل راہ ہو سکتی ہے؟ 1
جو اپنی دینی شریعت کا سرچشمہ اس کتاب کو قرار دیتے ہیں جب ان کی یہ شہادت ہے تو کیوں نہ یقین کیا جائے کہ خدا کے یہاں سے جو کتاب جانے ہی کے لیے آئی تھی اس کے جانے کا وقت آگیا تھا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بخت و اتفاق یا بے نظمی کے تحت نہیں بلکہ تقدیری نظام کی ماتحتی میں وہ آئی بھی اور اسی قانون کے زیرِ اثر وہ جہاں سے آئی تھی وہیں چلی گئی، اور جس طرح اسرائیل کے دس اسباط کو بچھڑنے کے بعد حضرت موسیٰ ؑاور ان کی تعلیم سے ملنا نصیب نہ ہوا، تقریباًکچھ اسی طرح وہ دو اسباط بھی کھوئے گئے، اگر چہ اب تک اسی غلط فہمی میں ہیں کہ ہم پائے ہوئے ہیں۔
باقی رہی دنیا کی وہ مذہبی جماعت جس کے پیغمبر نے اگر چہ کل اپنی ڈھائی سال کی نبوت کے بعد ان سے کھلے لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ میرا جاناہی تمہارے لیے بہتر ہے کہ آنے والا میرے جانے کے بغیر نہیں آئے گا۔ اور یہ کہہ کر وہ جانے ہی کے لیے آیا تھا چلا گیا، پر عیسائی کہتے ہیں کہ نہیں گیا۔ مگر جب پوچھا جاتا ہے کہ تم مسیح ؑاور ان کی زندگی کو کن راہوں سے پاتے ہو؟ تو دیکھنے کا وہ وقت ہوتا ہے جب یہ ایک دوسرے کو تاکتے ہیں، گھورتے ہیں۔ کیا مسیح کی کوئی کتاب تمہارے پاس ہے؟کیا اس کی کتاب کا کوئی ترجمہ تمہارے پاس ہے ؟ حیرت کی خاموشی کے سوا ان مسکینوںکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ نامعلوم الاسم والحال شخصیتوں کے ہاتھوں کے کچھ میلادی مسودے ہیں جن کی وقعت مسلمانوں کے ان عام میلادی رسالوں سے زیادہ نہیں جنہیں سعیدی یا شہیدی وغیرہ ناموں سے دو دو تین تین آنے پیسے لے کر گشتی مولود خواں ہندوستان میں پڑھتے پھرتے ہیں۔ ان ہی رسالوں کا نام انجیل رکھا گیا ہے، اسی قسم کی ہزار ہا انجیلوں سے انتخاب کر کے ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ خدا کی کتاب مل گئی، نجات کی روشنی مل گئی۔
اور ان کتابوں کا انتخاب کس طرح ہوا؟ ہر عیسائی جانتا ہے کہ نیفیہ1 کو نسل والوں نے گرجا کے صدر مقام پر انجیلوں کے اس انبار کو تہ بر تہ کر کے رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے نیچے جبوں والے پادری سجدے میں گر کر آنکھیں بند کر کے یہ دعا