حالاںکہ تورات بجز ہیکل یا شاہی خزانہ کے اور کہیں نہیں رہتی تھی۔
طیطس کے بعد روم کے قیصر ہڈرسن نے پھر پانچ لاکھ یہودیوں کو ذبح کر کے ان کی کتاب کے ساتھ وہی کیا جو پہلوں نے کیا تھا۔ اس نے بھی جوپیٹر کا دیوتا اسی جگہ قائم کیا جہاں کبھی سلیمان ؑنے اللہ کی مسجد بنائی تھی۔ اس نے یروشلم کا نام بدل کر ایلیاہ رکھ دیا۔ آغازِ اسلام تک بیت المقدس اسی نام سے موسوم تھا تاایں کہ آنے والا آیا اور جس طرح اس نے دنیا کے پاکوں کی تقدیس کی یہودیوں کے اس پاک شہر کا نام بھی بیت المقدس ہو گیا۔
ہوتا رہا، تباہیوں کا اور بربادیوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑتک پہنچنے کا یہ تنگ وتاریک سوراخ حوادث و واقعات کے طوفانوں میں کہاں تک کھلا رہ سکتا ہے؟ اور اس پر یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ بچھڑنے کے بعد بھی وہ اپنے پیغمبر موسیٰ ؑسے نہیں بچھڑے۔ دنیا فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہودی جس آئینہ کو پیش کر رہے ہیں کیا اس میں واقعی حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی پاک تعلیم کی وہ صورت نظر آسکتی ہے جو واقعی ان کی صورت تھی؟ راکھ کے اس ڈھیر سے موسوی شریعت کا جو سانچا تیار کیا گیا ہے، کیا سچ مچ وہ حضرت موسیٰ ؑکی تعلیم کا سچا قالب ہو سکتا ہے؟ سچائی کی پیاس ہی جن میں بجھ کر رہ گئی ہو، جن کو بجائے یقین کے شک ہی کے انگاروں پر لوٹنے میں ٹھنڈک میسر آتی ہو، ان سے بحث نہیں ہے، لیکن جن میں صداقت کی تڑپ ہے، جو واقعی ایمانی بشاشت کی تلاش میں ہیں، کیا شبہات و شکوک کے ان گھپ اندھیروں میں، وساوس واوہام کے ایسے خطر ناک گھنے جنگلوں میں، اس لیے گھس سکتے ہیں کہ ان کو وہاں ابدی زندگی کاچشمہ نصیب ہوگا؟
کیسی عجیب بات ہے کہ تقریباً دو ہزار سال سے جس خاکستری تورات کے بھی صرف ترجموں اور غلط سلط ترجموں در ترجموں کا دنیا میں رواج ہو، جس میں ایسے واقعات اور اسما بکثرت پائے جاتے ہوں جو قطعی طور پر حضرت موسیٰ ؑکے بعد کے ہیں، اُف ! جس میں خود حضرت موسیٰ ؑکی وفات، انکی تجہیز و تکفین تک کی داستان درج ہو۔ (استثناء باب ۳۴)
کسی میں جھوٹ کو برداشت کرنے کی اتنی صلاحیت ہے کہ اس کو پھر بھی حضرت موسیٰ ؑ پر نازل شدہ کتاب قرار دے ؟ ممکن ہے کہ مذہب میں منطق کو دخل نہ ہو، لیکن کیا اس حد تک کہ علانیہ جن کتابوں میں پیغمبر وں پر شراب خوری یا حرام کاری کا الزام لگایا گیا۔ لوط ؑجیسے اولوالعزم نبی اللہ کو (العیاذباللہ) اپنی بیٹیوں سے ملوث کیا گیا ہو، خدا وندِ قدوس کے کلام کو ایسی فحش گالیوں سے بھرا گیا ہو جن کو بازار کے غنڈے بھی اپنی زبانوں پر لاتے شرماتے ہوں، جس کتاب کا خدا پچھتاتا ہو، روتا ہو، کیا یہ اس ربِ قدوس کی کتاب ہو سکتی ہے جس کی تقدیس وتحمید کا ترانہ حضرت موسیٰ ؑاور ان کے بعد کے رسولوں نے دنیا کو سنایا تھا؟