میں آباد تھے۔ اگر چہ عملاً موسیٰ ؑ اور ان کی شریعت سے وہ بھی دور ہو چکے تھے لیکن اسماً پھر بھی قریب تھے۔
پر جو جانے کے لیے آیا تھا اس کے جانے کی آخری گھنٹی بھی بجا دی گئی۔ آنے والے کی روانگی کا وقت آگیا۔ آشوری برباد ہوئے، بابل آباد ہوا۔ اسی بابل کا مشہور نمرود بختِ نصر آندھی کی طرح اٹھا، بادل کی طرح چڑھا اور صاعقہ بن کر گرا اسرائیل کے ان دو پسماندہ سبطوں پر۔ {فَجَاسُوْا خِلَالَ الدِّیَارِ }1 جس کی تفسیر میں یہودی اور غیر یہودی ہر قسم کے مؤرخین کا بیان ہے۔ پوری قوم بنی اسرائیل کو مع زن و فرزند گرفتار کرایا، خانۂ خدا کی تمام چیزیں لُوٹ لیں، سلیمان کی بنائی ہوئی مقدس عمارت کو کھود کر زمین کے برابر کر دیا، سارا شہر منہدم کر ڈالا، گرد کی فصیل گرادی، ہر جگہ آگ لگا دی، ہر چیز جلا کر خاک کر ڈالی۔ (تاریخ یہود مؤلفہ شررص ۶۱) اور یہ ان کے شہر اور ملک کا حال ہوا۔ خود موسیٰ ؑاور ان کی کتاب کے آخری نگرانوں پر کیا گزری؟
ساری قوم بنی اسرائیل کی گرفتار ہو کے بابل روانہ ہوئی، بخت نصر یہودیوں کے بادشاہ صدقیاہ کو بھی اپنے ساتھ پکڑ کر لے گیا اور بابل میں پہنچنے کے بعد اس کے بیٹے اس کی آنکھوں کے سامنے طرح طرح کے عذابوں سے قتل کیے گئے اور یہ جگر پاش منظر دکھانے کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں پھوڑ ڈالی گئیں تاکہ پھر خوشی کی چیز نہ دیکھ سکے۔ (کتاب مذکورہ ص۶۱)
یہودیوں کا بادشاہ اندھا کیا گیا اور یہودی اگرچہ زندہ رکھے گئے لیکن کیسی زندگی ؟ سخت محنت اور جفاکشی میں رہتے اور اپنی حالت کو یاد کر کے روتے۔ انہیں اپنی مذہبی رسموں کو بجالانے کی ممانعت۔ نہ قربانی کر سکتے تھے نہ روزے رکھ سکتے تھے ۔(کتاب مذکورہ ص ۶۱)
عملاًوہ اس طرح موسوی شریعت کی رسوم سے بھی جدا کیے گئے اور یہودیوں کا جو کتابی سرمایہ تھا اس کے متعلق تاریخ کی یہ اتفاقی شہادت ہے:
’’تو راتِ مقدس اور قدیم آسمانی صحفِ انبیاء کا کہیں پتہ نہ تھا اس لیے بابل والوں کے طوفان بے تمیزی نے ان کی قدیم تاریخ اور اگلے اسرائیلی لٹریچر کے ساتھ ان مقدس کتابوں کو بھی فنا کر دیا تھا‘‘۔ (کتاب مذکورہ ص ۵۹)
اسرائیل کے یہی دو سبط موسوی دین کا آخری سہارا تھے، سو ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا۔
یہ سچ ہے کہ غلامی کی اس رسوا ز ندگی اور اسیری کی ان ذلیل گھڑیوں سے اولاد ِیعقوب کو ایک مدت کے بعد نجا ت میسر آئی۔ اُس وقت نجات میسر آئی جب اسیر ہونے والے زندگی کی قید سے آزاد ہو چکے تھے اور صرف ان کے دو بچے رہ گئے تھے جنہوں نے اُس ملک میں آنکھیں کھولیںجہاں ان کے مذہب کی تعلیم ممنوع تھی اور مذہبی رسوم کی بجا آوری جرم ٹھہرائی گئی تھی۔ لیکن اپنے ماں اور باپ کی نالہ و بکا کے شور میں ان کے کانوں تک آواز پہنچی تھی کہ وہ بھی کسی دین کے