Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015

اكستان

18 - 65
 سامنے آئے گا، ہمیں وہ بھی نظر نہیں آتا جو ہمیں دیکھ رہا ہے ہر وقت دیکھ رہا ہے ہمارا ہر ایک عمل دیکھ رہا  ہے ہماری ہر ایک حرکت دیکھ رہا ہے ہمیں اُس کے سامنے حاضر ہونا ہے ہر ایک عمل کا حساب اور ہر سوال کا جواب دینا ہے یہی یقین'' اِیمان'' ہے۔ اِس یقین کے تقاضوں کو پورا کرنا اِیمانداری ہے، تقوی کی پہلی منزل یہیں سے شروع ہوتی ہے اِسی کا دُوسرا نام ضمیرکی اِصلاح ہے، یہ اِصلاح ہوجائے تو پھر ہمیں قانون کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارا عمل خود قانون ہوگا قانون کی جان ہوگا قانون بے اِعتمادی کی دلیل ہے، قانون اِصلاح نہیں کرتا اَلبتہ قوم کی خرابیوں کی چغلی کرتا ہے۔ 
آخری منزل  ..........  ''ملکیت'' کا خاتمہ 
میدانِ سیاست کے مشہور شہسوار تیز دوڑ رہے ہیں، ہانپ رہے ہیں، سانس پھولے ہوئے ہیں دلوں کی دھڑکنیں بڑھی ہوئی ہیں چہروں پر گرد ہے ہونٹوں سے کف اُبل رہا ہے حواس گم ہیں پیٹ پر ہاتھ ہے،چلا رہے ہیں کہ سیٹھ جی سے خزانہ چھین کر مزدُوروں کو دیا تھا کہ جنتاکا پیٹ بھرے ملک کی غریبی دُور ہو، اب یہ مزدور بھی سیٹھ بن گئے، وہی رشوت، بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ اور جہاں سے مل سکے روپیہ چھیننے اور جمع کرنے کی ہوس، جو سیٹھ صاحب کی فطرت تھی مزدوروں کی طبیعت بنتی جا رہی ہے، دولت کی گردش کو پہلے تنہا سیٹھ صاحب روکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے تقسیم مساوی نہیں ہو رہی تھی، جنتا کا ہاتھ خالی اور پیٹ بھوکے تھے۔ نئے قانون سے سیٹھ جی کا زور تو ٹوٹا لیکن نئے سیٹھوں کی نئی دُنیا جنم لینے لگی جو پہلے سے زیادہ تنگ نظر، پاپی اور زہریلی ہے، کیا کوئی منتر ہے کہ نئے دولتمندوں کی      یہ پیدائش بند ہو، دولت کی تقسیم میں فرق نہ آئے اور بھوکی جنتا کا پیٹ بھرے۔ 
سوال بہت ضروری تھا  !  !  '' سو شلزم'' کا سارا گھروندہ زمین پر ڈھیر ہوا جا رہا تھا بڑے فکر کی  بات تھی، کانفرنس طلب کی گئی، ایجنڈے میں صرف یہی ایک سوال تھا کہ دولت کی تقسیم کس طرح مساوی ہو جنتا کا پیٹ کیسے بھرے اور نئے سیٹھوں کی پیداوار کیسے رُکے  ؟  کئی روز تک بحث ہوئی، دِل کھول کر تقریریں کی گئیں، خیالات ظاہر کیے گئے، سب مقرر ایک ہی پارٹی کے تھے، عام طور پر تقریروں میں یہی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرفِ آغاز 4 1
3 درسِ حدیث 6 1
4 گورنروں کے لیے ضابطہ : 7 3
5 مال کمائو مگر اللہ کو یاد رکھو : 8 3
6 اعلیٰ اَخلاق کا معلم 9 1
7 سرمایہ پرستی کا دُشمن ۔ اِنسانیت کا حامی ۔ شرافت کا علمبردار 9 6
8 دُنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے : صاحب ِ سرمایہ اور محنت کش مزدُور 9 6
9 اِس کائنات کا مقصد کیا ہے ؟ 12 6
10 میدانِ اِنقلاب ....... تبدیلی کہاں کی جائے ؟ 14 6
11 آخری منزل .......... ''ملکیت'' کا خاتمہ 18 6
12 تقسیم کی صورت : 20 6
13 ایک مثال : 21 12
14 ایک عجیب و غریب دلیل یا فیصلہ ملاحظہ فرمائیے : 21 6
15 اِسلام کیا ہے ؟ 23 1
16 سترہواں سبق : ذکر اللہ 23 15
17 اَفضل الذکر : 23 15
18 کلمۂ تمجید : 24 15
19 تسبیحاتِ فاطمہ : 25 15
20 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ : 26 15
21 قرآنِ پاک کی تلاوت : 27 15
22 ذکر کے متعلق چند آخری باتیں : 28 15
23 وفیات 29 1
24 قصص القرآن للاطفال 30 1
25 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصے 30 24
26 ( حضرت لقمان حکیم کا قصہ ) 30 24
27 بقیہ : اعلیٰ اَخلاق کا معلم 33 6
28 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 34 1
29 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 34 28
30 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 34 28
31 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 35 28
32 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 37 28
33 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 38 28
34 بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 42 1
35 زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں : 43 1
36 عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات : 46 1
37 ماہِ صفر کی نحوست کا تصور : 48 1
38 دین کے مختلف شعبے 49 1
39 (ا ) اصل ِدین کا تحفظ : 49 38
40 (٢ ) راستہ کی رُکاوٹوں کو دُور کرنا : 50 38
41 (٣) باطل عقائد و نظریات کی تردید : 50 38
42 (٤ ) دعوت اِلی الخیر : 53 38
43 دین کے تمام شعبوں کا مرکز : 54 38
44 موجودہ دور کا اَلمیہ : 55 38
45 تعارف و تبصرہ '' فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ '' 57 1
46 نام و نسب : 58 45
47 وِلادت با سعادت : 58 45
48 تحصیل ِعلم : 58 45
49 درس و تدریس اور فضل و کمال : 58 45
50 وفات : 61 45
51 تعارف و تبصرہ بر کتاب عجالہ نافعہ : 61 45
52 فصل اَوّل : 61 45
53 شرائط : 62 52
54 طبقہ اُولیٰ : 63 52
55 طبقہ ثانیہ : 63 52
56 طبقہ ثالثہ : 63 52
57 طبقہ رابعہ : 63 52
58 فصل دوم : 64 45
59 خاتمہ : 64 58
60 بقیہ : بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 64 34
Flag Counter