ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
سامنے آئے گا، ہمیں وہ بھی نظر نہیں آتا جو ہمیں دیکھ رہا ہے ہر وقت دیکھ رہا ہے ہمارا ہر ایک عمل دیکھ رہا ہے ہماری ہر ایک حرکت دیکھ رہا ہے ہمیں اُس کے سامنے حاضر ہونا ہے ہر ایک عمل کا حساب اور ہر سوال کا جواب دینا ہے یہی یقین'' اِیمان'' ہے۔ اِس یقین کے تقاضوں کو پورا کرنا اِیمانداری ہے، تقوی کی پہلی منزل یہیں سے شروع ہوتی ہے اِسی کا دُوسرا نام ضمیرکی اِصلاح ہے، یہ اِصلاح ہوجائے تو پھر ہمیں قانون کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارا عمل خود قانون ہوگا قانون کی جان ہوگا قانون بے اِعتمادی کی دلیل ہے، قانون اِصلاح نہیں کرتا اَلبتہ قوم کی خرابیوں کی چغلی کرتا ہے۔ آخری منزل .......... ''ملکیت'' کا خاتمہ میدانِ سیاست کے مشہور شہسوار تیز دوڑ رہے ہیں، ہانپ رہے ہیں، سانس پھولے ہوئے ہیں دلوں کی دھڑکنیں بڑھی ہوئی ہیں چہروں پر گرد ہے ہونٹوں سے کف اُبل رہا ہے حواس گم ہیں پیٹ پر ہاتھ ہے،چلا رہے ہیں کہ سیٹھ جی سے خزانہ چھین کر مزدُوروں کو دیا تھا کہ جنتاکا پیٹ بھرے ملک کی غریبی دُور ہو، اب یہ مزدور بھی سیٹھ بن گئے، وہی رشوت، بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ اور جہاں سے مل سکے روپیہ چھیننے اور جمع کرنے کی ہوس، جو سیٹھ صاحب کی فطرت تھی مزدوروں کی طبیعت بنتی جا رہی ہے، دولت کی گردش کو پہلے تنہا سیٹھ صاحب روکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے تقسیم مساوی نہیں ہو رہی تھی، جنتا کا ہاتھ خالی اور پیٹ بھوکے تھے۔ نئے قانون سے سیٹھ جی کا زور تو ٹوٹا لیکن نئے سیٹھوں کی نئی دُنیا جنم لینے لگی جو پہلے سے زیادہ تنگ نظر، پاپی اور زہریلی ہے، کیا کوئی منتر ہے کہ نئے دولتمندوں کی یہ پیدائش بند ہو، دولت کی تقسیم میں فرق نہ آئے اور بھوکی جنتا کا پیٹ بھرے۔ سوال بہت ضروری تھا ! ! '' سو شلزم'' کا سارا گھروندہ زمین پر ڈھیر ہوا جا رہا تھا بڑے فکر کی بات تھی، کانفرنس طلب کی گئی، ایجنڈے میں صرف یہی ایک سوال تھا کہ دولت کی تقسیم کس طرح مساوی ہو جنتا کا پیٹ کیسے بھرے اور نئے سیٹھوں کی پیداوار کیسے رُکے ؟ کئی روز تک بحث ہوئی، دِل کھول کر تقریریں کی گئیں، خیالات ظاہر کیے گئے، سب مقرر ایک ہی پارٹی کے تھے، عام طور پر تقریروں میں یہی