ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
اور ایک حدیث میں اِرشادِ نبوی ہے کہ : ''جو کوئی کسی ایسے شخص کے پاس گیا جو غیب کی خبریں بتاتا ہو اور اُس کے غیب کی تصدیق کردی تو اُس چیز سے بری ہوگیا جومحمد ۖ پر نازل ہوئی۔'' (اَبو داؤد ) ماہِ صفر کی نحوست کا تصور : بعض لوگ صفر کے مہینے کے تعلق سے یہ نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اِس مہینے میں مصیبتیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں، اِسلام سے قبل زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی لوگ مختلف قسم کے توہمات وسوسوں اور غلط عقائد میں گھرے ہوئے تھے، حضور اکرم ۖ نے صفر کے مہینے کی نحوست کا اِنکار کرتے ہوئے فرمایا : وَلَا صَفَرَ تیرہ تیزی کی کوئی حقیقت نہیں ۔عرب خصوصًا صفر کے اِبتدائی تیرہ دِنوں اور عمومًا پورے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، زمانہ ٔ جاہلیت میں مثلاً اِس میں عقد ِنکاح ،پیغامِ نکاح اور سفر کرنے کو منحوس اور نامبارک اور نقصان کا باعث سمجھا جاتا تھا، حضور اکرم ۖ نے زمانہ ٔ جاہلیت کے اِس اِعتقاد کی پُر زور تردید فرمائی کہ صفر میں نحوست کا اِعتقاد سرے سے غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ دِن، مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے کہ فلاں مہینے میں فلاں تاریخ میں فلاں دِن میں شادی کے اِنعقاد کو با برکت تصور کیاجائے اور بعض دنوں جیسا کہ مشہورہے کہ ''تین ،تیرہ، نو ،اَٹھارہ'' یہ منحوس دِن تصور کیے جاتے ہیں بلکہ اِس تعبیر ہی کو بربادی اور تباہی کے معنی میں لیاجاتا ہے، یہ سب خرافات اور خود ساختہ اور بناوٹی باتیں ہیں، زمانے اور دنوں میں نحوست نہیں ہوتی، نحوست بندوں کے اَعمال واَفعال کے ساتھ وابستہ ہے ، جس وقت یا دِن یالمحہ کو بندے نے اللہ کی یاد اور اُس کی عبادت میں گزارا وہ وقت تو اُس کے حق میں مبارک ہے اور جس وقت کو بد عملی، گناہوں اور اللہ عز و جل کی حکم عدولیوں میں گزار دیا تووہ وقت اُس کے لیے منحوس ہے، حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں۔الغرض منحوس ہمارے برے اَعمال اور غیر اِسلامی عقائد ہیں۔ اگرکسی مسلمان کو کوئی ایسی چیز پیش آجائے جس سے خواہ مخواہ ذہن میں بدخیالی اور بد فالی کا تصور آتاہو تو جس کام سے نکلاہے اُس سے نہ رُکے اور یہ دُعا پڑھے : (باقی صفحہ ٦٤ )