ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
تقسیم کی صورت : پھر اسٹیٹ اُس (گھرانے)کے اَفراد کی ضروریات کا اِنتظام براہِ راست کرے گی یا اُس کو فیملی کا ہیڈ یا گھر کا بڑا قرار دے کر ضروریات کا اِنتظام اُس کے ذریعے کرے گی، دُوسری صورت میں تقسیم کس طرح مساوی ہوگی ؟ کیونکہ مثلاً چالیس سال کے اِنسان کے آٹھ بچے ہیں اور اِسی عمر کے دُوسرے آدمی کے چار بچے ہیں اور اِسی عمر کا ایک شخص ایسا ہے جس کے اَولاد ہی نہیں ہوئی۔ یہ چاروں ایک ہی درجہ کے مزدور ہیں مثلاً کسی فیکٹری کی ایک ہی برانچ میں ایک ہی درجہ کا کام کرتے ہیں یا کسی دفتر میں ایک ہی درجہ کے کلرک ہیں تو اَب اُن کا الاؤنس یا وظیفہ مساوی ہوگا یا خاندان کے اَفراد کے بموجب کم و بیش ہوگا ؟ یکساں ہونے کی صورت میں ہر ایک کا پیٹ نہیں بھرے گا اور کم و بیش ہونے کی صورت میں نااِنصافی کا شکوہ ایک نئی مصیبت بن جائے گا اور یہ سوال زور پکڑے گا کہ کیا وجہ ہے کہ مساوی درجہ کے ایک مزدور کو اسٹیٹ صرف اُس کا خرچہ دے، دُوسرے کو مزید چار کا اور تیسرے کو مزید آٹھ کا، دُوسری بات یہ ہے کہ اَولاد ایک کی اور خرچہ دُوسرے کے ذمے ! کیونکہ اسٹیٹ صرف اَولاد والے کا نہیں پورے ملک کا مشترک اِدارہ ہے۔ (د) ایک شخص جو کچھ کماتا تھا سلیقہ سے خرچ کرتا تھا اپنے خرچ سے بچا کر ماں باپ اور دُوسرے رشتہ داروں کی بھی خدمت کرتاتھا، بسا اَوقات پڑوسیوں کی بھی اِمداد کیا کرتا تھا، اِس وجہ سے اُس کے تعلقات نہایت خوشگو ار تھے اُس سے ہر ایک محبت اور اُس کی عزت کرتا تھا، اُس کی عزت کو دیکھ کر جوانوں میں بھی پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی اِمداد کا جذبہ پیدا ہوتا تھا لیکن جب اُس کی کمائی اُس کی نہیں رہی اسٹیٹ کی ہوگئی تو ماں باپ بہن بھائی آس پڑوس کی اِمداد کے تمام سلسلے ختم ہوگئے، آپس کی ہمدردی اور لحاظ و مروت سب خوابِ پریشان بن گئے، اب اِنسان کو مویشیوں کے نقش ِقدم پر چلنا پڑے گا، اصطبل کے مالک ہر ایک گھوڑے کی رہائش خوراک اور حفاظت کا اِنتظام کرتا ہے جو مویشی یہاں رہتے ہیں فربہ بھی ہوجاتے ہیں اُچھلتے کودتے بھی خوب ہیں مالک کا کام بھی کرتے ہیں لیکن اُن میں آپس میں نہ اَدب اور لحاظ ہوتاہے، نہ مروت اور پاسداری اور نہ جذبہ ہمدردی ہوتا ہے۔