Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015

اكستان

43 - 65
گراں بار کیاجاتا ہے، اَلغرض لوگوں نے اِن توہمات و خرافات کی شکل میں زندگی کے مختلف گوشوں میں اِس قدر بکھیڑے کھڑے کر دیے ہیں کہ شمار واِحصاء سے باہر، سچ کہا ہے شاعر مشرق علامہ اِقبال نے  : 
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات 
 جہاں ہم نے ایک اکیلے، واحد وتنہا اور قادر ِ مطلق ذات کو حقیقی معبود و مسجود اور اُس کی بارگاہ  کی حاضری اور اُس کے سامنے جبینِ نیازخم کرنا چھوڑدیا، اُسی کی ذات کے ساتھ نفع و نقصان کی وابستگی کے اِعتقاد کو پس پشت ڈال دیا، عجیب بھول بھلیوں میں گم ہوگئے، مختلف پتھروں مورتیوں رسموں رواجوں مختلف اَوقات وگھڑیوں اور مہینوں واَیام سے اپنی تقدیر وابستہ کر بیٹھے اور اپنی منفعت و مضرت  کو اُن سے منسوب کر دیا، ایک اکیلے اللہ کو راضی کرنا کتنا آسان تھا، اِس سے بڑھ کر بے زبان، بے عقل جانور، کتے، بلیوں، طوطوں، اُلوؤں اور کو ؤں تک سے اپنے نفع و نقصان کااِعتقاد یہ کس قدر نادانی اور بچکانی اور گئی گزری ہوئی حرکت ہو سکتی ہے، اگر ہم ایک اکیلے اللہ کو حقیق نافع و ضار سمجھ کر اُس سے اپنی   تقدیر کا بننا و بگڑنا وابستہ کرتے اور اُسی یکتا و تنہا ذات کو اپنی مقدس پیشانی کو جھکانے کے لیے چن لیتے تو آج کا یہ اِنسان اِس قدر حیران و سر گرداں نہ ہوتا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے بچ جاتا۔ 
زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں  : 
زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی اِسلام کی آمد سے قبل لوگوںمیں مختلف چیزوں سے شگون لینے کا رواج تھا۔ 
(١)  ایک طریقہ یہ تھا کہ خانۂ کعبہ میں تیر رکھے ہوئے ہوتے جن میں سے کچھ پر ''لا'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست نہیں اور بعض میں ''نعم'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست ہے، وہ اِس سے فال نکالتے اور اُسی کے مطابق عمل کرتے یا جب کسی کام سے نکلناہوتا درخت پر بیٹھے ہوئے کسی پرندے کو اُڑا کر دیکھتے کہ یہ جانور کس سمت اُڑا، اگر دائیں جانب کو اُڑ گیا تو اُسے مبارک اور سعد جانتے تھے کہ جس کام کے لیے ہم نکلے ہیں وہ کام ہوجائے گا اوراگر بائیں جانب کواُڑ گیا تو اِس کومنحوس اور نا مبارک سمجھتے، حضور اکرم  ۖ  نے اِن سب چیزوں کی نفی فرمادی اور فرمایا  :  اَقِرُّوا الطُّیُوْرَ عَلٰی مَکَانَتِھَ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرفِ آغاز 4 1
3 درسِ حدیث 6 1
4 گورنروں کے لیے ضابطہ : 7 3
5 مال کمائو مگر اللہ کو یاد رکھو : 8 3
6 اعلیٰ اَخلاق کا معلم 9 1
7 سرمایہ پرستی کا دُشمن ۔ اِنسانیت کا حامی ۔ شرافت کا علمبردار 9 6
8 دُنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے : صاحب ِ سرمایہ اور محنت کش مزدُور 9 6
9 اِس کائنات کا مقصد کیا ہے ؟ 12 6
10 میدانِ اِنقلاب ....... تبدیلی کہاں کی جائے ؟ 14 6
11 آخری منزل .......... ''ملکیت'' کا خاتمہ 18 6
12 تقسیم کی صورت : 20 6
13 ایک مثال : 21 12
14 ایک عجیب و غریب دلیل یا فیصلہ ملاحظہ فرمائیے : 21 6
15 اِسلام کیا ہے ؟ 23 1
16 سترہواں سبق : ذکر اللہ 23 15
17 اَفضل الذکر : 23 15
18 کلمۂ تمجید : 24 15
19 تسبیحاتِ فاطمہ : 25 15
20 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ : 26 15
21 قرآنِ پاک کی تلاوت : 27 15
22 ذکر کے متعلق چند آخری باتیں : 28 15
23 وفیات 29 1
24 قصص القرآن للاطفال 30 1
25 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصے 30 24
26 ( حضرت لقمان حکیم کا قصہ ) 30 24
27 بقیہ : اعلیٰ اَخلاق کا معلم 33 6
28 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 34 1
29 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 34 28
30 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 34 28
31 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 35 28
32 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 37 28
33 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 38 28
34 بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 42 1
35 زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں : 43 1
36 عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات : 46 1
37 ماہِ صفر کی نحوست کا تصور : 48 1
38 دین کے مختلف شعبے 49 1
39 (ا ) اصل ِدین کا تحفظ : 49 38
40 (٢ ) راستہ کی رُکاوٹوں کو دُور کرنا : 50 38
41 (٣) باطل عقائد و نظریات کی تردید : 50 38
42 (٤ ) دعوت اِلی الخیر : 53 38
43 دین کے تمام شعبوں کا مرکز : 54 38
44 موجودہ دور کا اَلمیہ : 55 38
45 تعارف و تبصرہ '' فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ '' 57 1
46 نام و نسب : 58 45
47 وِلادت با سعادت : 58 45
48 تحصیل ِعلم : 58 45
49 درس و تدریس اور فضل و کمال : 58 45
50 وفات : 61 45
51 تعارف و تبصرہ بر کتاب عجالہ نافعہ : 61 45
52 فصل اَوّل : 61 45
53 شرائط : 62 52
54 طبقہ اُولیٰ : 63 52
55 طبقہ ثانیہ : 63 52
56 طبقہ ثالثہ : 63 52
57 طبقہ رابعہ : 63 52
58 فصل دوم : 64 45
59 خاتمہ : 64 58
60 بقیہ : بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 64 34
Flag Counter