ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
گراں بار کیاجاتا ہے، اَلغرض لوگوں نے اِن توہمات و خرافات کی شکل میں زندگی کے مختلف گوشوں میں اِس قدر بکھیڑے کھڑے کر دیے ہیں کہ شمار واِحصاء سے باہر، سچ کہا ہے شاعر مشرق علامہ اِقبال نے : وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات جہاں ہم نے ایک اکیلے، واحد وتنہا اور قادر ِ مطلق ذات کو حقیقی معبود و مسجود اور اُس کی بارگاہ کی حاضری اور اُس کے سامنے جبینِ نیازخم کرنا چھوڑدیا، اُسی کی ذات کے ساتھ نفع و نقصان کی وابستگی کے اِعتقاد کو پس پشت ڈال دیا، عجیب بھول بھلیوں میں گم ہوگئے، مختلف پتھروں مورتیوں رسموں رواجوں مختلف اَوقات وگھڑیوں اور مہینوں واَیام سے اپنی تقدیر وابستہ کر بیٹھے اور اپنی منفعت و مضرت کو اُن سے منسوب کر دیا، ایک اکیلے اللہ کو راضی کرنا کتنا آسان تھا، اِس سے بڑھ کر بے زبان، بے عقل جانور، کتے، بلیوں، طوطوں، اُلوؤں اور کو ؤں تک سے اپنے نفع و نقصان کااِعتقاد یہ کس قدر نادانی اور بچکانی اور گئی گزری ہوئی حرکت ہو سکتی ہے، اگر ہم ایک اکیلے اللہ کو حقیق نافع و ضار سمجھ کر اُس سے اپنی تقدیر کا بننا و بگڑنا وابستہ کرتے اور اُسی یکتا و تنہا ذات کو اپنی مقدس پیشانی کو جھکانے کے لیے چن لیتے تو آج کا یہ اِنسان اِس قدر حیران و سر گرداں نہ ہوتا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے بچ جاتا۔ زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں : زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی اِسلام کی آمد سے قبل لوگوںمیں مختلف چیزوں سے شگون لینے کا رواج تھا۔ (١) ایک طریقہ یہ تھا کہ خانۂ کعبہ میں تیر رکھے ہوئے ہوتے جن میں سے کچھ پر ''لا'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست نہیں اور بعض میں ''نعم'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست ہے، وہ اِس سے فال نکالتے اور اُسی کے مطابق عمل کرتے یا جب کسی کام سے نکلناہوتا درخت پر بیٹھے ہوئے کسی پرندے کو اُڑا کر دیکھتے کہ یہ جانور کس سمت اُڑا، اگر دائیں جانب کو اُڑ گیا تو اُسے مبارک اور سعد جانتے تھے کہ جس کام کے لیے ہم نکلے ہیں وہ کام ہوجائے گا اوراگر بائیں جانب کواُڑ گیا تو اِس کومنحوس اور نا مبارک سمجھتے، حضور اکرم ۖ نے اِن سب چیزوں کی نفی فرمادی اور فرمایا : اَقِرُّوا الطُّیُوْرَ عَلٰی مَکَانَتِھَ