Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015

اكستان

54 - 65
نہ کی جائے، اِسی طرح اِسلامی معاشرہ کا تصور بھی اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ گناہوں اور نافرمانیوں کو جڑ سے نہ اُکھیڑدیا جائے، جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ''جماعت'' کا کام تو بس نماز کی دعوت دینا ہے اور برائیاں کتنی ہی آنکھوں کے سامنے گھر میں یا باہر ہوتی رہیں اُن پر نکیر کرنا ہمارا کام نہیں ،یہ بڑی بھول ہے۔
قرآنِ کریم نے دعوت کی تفسیر میں دونوں ذمہ داریو ں کو بتایا ہے : (١)  اَمَرْ بِالْمَعْرُوْفِ اچھی باتوں کی تلقین(٢) نَہِیْ عَنِ الْمُنْکَرِ بری باتوں پر تنبیہ۔ اِن ہی دونوں ذمہ داریوں کو اَدا کرکے  دعوت کا مفہوم پورا ہوتا ہے، یہ اِنصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم اچھائیوں کی دعوت میں سب کچھ کھپادیں اور جب برائیوں پر متنبہ کرنے کا وقت آئے تو دامن بچاکر لے جائیں کہ کہیں کوئی ناراض یا دَرپے آزار نہ ہوجائے۔ بہر کیف اُمت میں ایسے اَفراد کا موجود رہنا ضروری ہے جو دُنیا میں خیر کو پھیلاتے رہیں اور منکرات پر قوت کے ساتھ نکیر کرتے رہیں، یہ دین کا نہایت مفید اور وسیع ترین شعبہ ہے۔ 
دین کے تمام شعبوں کا مرکز  :
دین کے اِن تمام شعبوں کا مرکز دورِ نبوت میں آنحضرت  ۖ  کی مسجد مبارکہ تھی، وہیں تعلیم کے حلقے لگتے تھے، وہیں تربیت اور تزکیہ کا کام ہوتا تھا، وہیں سے مجاہدین کے لشکر منظم کرکے بھیجے جاتے تھے اور وہیں سے تبلیغی وفود رَوانہ ہوتے تھے، پھر کام کرنے والے بھی ایسے تھے جو بیک وقت معلّم بھی تھے مجاہد بھی تھے اور مبلغ بھی تھے۔ الغرض ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق دین کی ہر خدمت اَنجام دینے کو تیار رہتا تھا، دَورِ صحابہ و تابعین میں بھی یہی منظر دیکھنے کو ملتا رہا، بڑے بڑے اَکابر محدثین اور علماء حصولِ ثواب کے لیے مسندِ درس کو چھوڑکر تلوار اُٹھاتے اور دُشمنانِ اِسلام کے مقابلہ میں اپنی دلیری اور بہادری کے جوہر دکھاتے تھے، اُس وقت چونکہ خلوص عام تھا اِس لیے یہ بات نہ تھی کہ یہ کام ہمارا  ہے اور وہ کام اُن کا ہے، اِس کام کے توہم ہی ٹھیکیدار ہیں اِس میں دُوسرے کو شامل ہونے کی اِجازت نہیں بلکہ دین کے ہر کام کو ہر شخص اپنا ہی کام سمجھتا تھا اور ایک دُوسرے کے تعاون کی اِمکانی کوشش کی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرفِ آغاز 4 1
3 درسِ حدیث 6 1
4 گورنروں کے لیے ضابطہ : 7 3
5 مال کمائو مگر اللہ کو یاد رکھو : 8 3
6 اعلیٰ اَخلاق کا معلم 9 1
7 سرمایہ پرستی کا دُشمن ۔ اِنسانیت کا حامی ۔ شرافت کا علمبردار 9 6
8 دُنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے : صاحب ِ سرمایہ اور محنت کش مزدُور 9 6
9 اِس کائنات کا مقصد کیا ہے ؟ 12 6
10 میدانِ اِنقلاب ....... تبدیلی کہاں کی جائے ؟ 14 6
11 آخری منزل .......... ''ملکیت'' کا خاتمہ 18 6
12 تقسیم کی صورت : 20 6
13 ایک مثال : 21 12
14 ایک عجیب و غریب دلیل یا فیصلہ ملاحظہ فرمائیے : 21 6
15 اِسلام کیا ہے ؟ 23 1
16 سترہواں سبق : ذکر اللہ 23 15
17 اَفضل الذکر : 23 15
18 کلمۂ تمجید : 24 15
19 تسبیحاتِ فاطمہ : 25 15
20 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ : 26 15
21 قرآنِ پاک کی تلاوت : 27 15
22 ذکر کے متعلق چند آخری باتیں : 28 15
23 وفیات 29 1
24 قصص القرآن للاطفال 30 1
25 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصے 30 24
26 ( حضرت لقمان حکیم کا قصہ ) 30 24
27 بقیہ : اعلیٰ اَخلاق کا معلم 33 6
28 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 34 1
29 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 34 28
30 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 34 28
31 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 35 28
32 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 37 28
33 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 38 28
34 بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 42 1
35 زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں : 43 1
36 عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات : 46 1
37 ماہِ صفر کی نحوست کا تصور : 48 1
38 دین کے مختلف شعبے 49 1
39 (ا ) اصل ِدین کا تحفظ : 49 38
40 (٢ ) راستہ کی رُکاوٹوں کو دُور کرنا : 50 38
41 (٣) باطل عقائد و نظریات کی تردید : 50 38
42 (٤ ) دعوت اِلی الخیر : 53 38
43 دین کے تمام شعبوں کا مرکز : 54 38
44 موجودہ دور کا اَلمیہ : 55 38
45 تعارف و تبصرہ '' فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ '' 57 1
46 نام و نسب : 58 45
47 وِلادت با سعادت : 58 45
48 تحصیل ِعلم : 58 45
49 درس و تدریس اور فضل و کمال : 58 45
50 وفات : 61 45
51 تعارف و تبصرہ بر کتاب عجالہ نافعہ : 61 45
52 فصل اَوّل : 61 45
53 شرائط : 62 52
54 طبقہ اُولیٰ : 63 52
55 طبقہ ثانیہ : 63 52
56 طبقہ ثالثہ : 63 52
57 طبقہ رابعہ : 63 52
58 فصل دوم : 64 45
59 خاتمہ : 64 58
60 بقیہ : بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 64 34
Flag Counter