ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
میدانِ اِنقلاب ....... تبدیلی کہاں کی جائے ؟ عالیشان کوٹھی کے ہرے بھرے لان کے کنارہ پر موٹر گراج کے پیچھے سر کیوں کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ایک دُبلی پتلی عورت اور اُس کے تین چار چھوٹے بڑے بچے رینگ رہے ہیں، کپڑے پھٹے ہوئے، پیٹ خالی، چہروں پر ہوائیاں، اُونچی نیچی زمین اُن کا فرش اور بسترہ ہے، دو بچے اُسی پر پڑے ہوئے ہیں ایک کا بدن بخار سے تپ رہا ہے دُوسرے کے بدن پر چیچک کی پھنسیاں ہیں ، ہسپتال سے اُس کو خارج کر دیا گیا ہے لیکن ابھی بہت کمزور ہے کچھ پھنسیاں پک بھی گئی ہیں، یہ کوٹھی ایک ساہوکار ١ کی ہے یہ ایک کروڑ پتی ہے اُس کی کئی مِل ہیں فیکٹریاں ہیں، اُس کا اپنا ایک بنک ہے کوٹھی نہایت خوبصورت عظیم الشان، بہت آراستہ، اُس کا فر نیچر بھی لاکھ سوا لاکھ سے کم کا نہیں ہے، اُس کے پاس کئی کاریں ہیں، بڑے بڑے اَفسروں سے اُس کی دوستی ہے، کئی اَفسر لنچ کے وقت زیادہ تر اُسی کے یہاں آجاتے ہیں، ہفتہ میں ایک دو دفعہ ڈنر ضرور ہوتا ہے جس میں منسٹر اور اکثر باہر کے سفیر بھی شریک ہو ا کرتے ہیں۔ عورت کی وہ جھونپڑی کوٹھی کے سامنے تو نہیں ہے لیکن جب کار گیٹ سے گزرتی ہے تو اُس کا کونہ نظر آتا ہے اور باہر سڑک پر جب اُس طرف کار مڑتی ہے تو وہ جھونپڑی بالکل سامنے ہوتی ہے سیٹھ صاحب کی نظر اُس پر پڑ جاتی ہے تو گیٹ کے سنتری کو ڈانتے ہیں کہ جھونپڑی کیوں نہیں ہٹوادیتے لیکن پھر کچھ رحم آجاتا ہے چھوڑ دیتے ہیں، یہ سیٹھ صاحب کی مہربانی ہے۔ لیکن کیا ڈنر اور کاک ٹیل کے وقت بھی سیٹھ صاحب کو اُس غریب عورت اور اُس کے بچوں کا خیال آتا ہے ؟ اگر ایک پلیٹ یا ایک جام کی قیمت اِس غریب کو دے دیں تو اُس کا پورا ہفتہ آرام سے بیت جائے مگر سیٹھ جی کو کبھی اِس کا خیال بھی نہیںآیا، اُس کے سینے میں دِل ہے یا پچھلے دِنوں جو آپریشن ہوا تھا اُس میں دِل کی جگہ ڈاکٹروں نے کوئی پتھر رکھ دیا ہے مگر آپریشن سے پہلے بھی اُن کا دِل پتھر ہی تھا جو کبھی بھی غریبوں کی ہمدردی کے لیے نہیں پسیجتا تھا۔ ١ سود پر روپیہ چلانے والا