ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
رات میں، لیکن اگر وہ اُس سورت کو حفظ بھی کرنا چاہتا ہے تو اُس کو مسلسل بلا کسی وقفہ کے بیسوں دفعہ ایک ہی نشست میں پڑھنا پڑے گا، اِس کے بغیر وہ یادنہیں کر سکے گا، بس یہی فرق ہے اُس عام ذکر میں جو ثواب کے لیے کیا جاتا ہے اور اُس خاص ذکر میں جوحضراتِ مشائخ اہلِ سلوک کے لیے بطورِ علاج اور تدبیر کے تجویز کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کوذکر کی اِن قسموں کا فرق معلوم نہ ہونے کی وجہ سے علمی اور فقہی اُلجھنیں ہوتی ہیں اِس لیے یہ مختصر بات یہاں عرض کردی گئی۔ قرآنِ پاک کی تلاوت : قرآنِ پاک کی تلاوت ١ بھی اللہ کا ذکر ہے بلکہ اعلیٰ درجے کا ذکرہے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ١ آج کل کے بعض جدید تعلیم یافتہ حضرات کا خیال ہے اور وہ بڑے زور سے اِس کی اِشاعت کرتے ہیں کہ معنی مفہوم سمجھے بغیر قرآن شریف کی تلاوت بالکل فضول ہے۔ یہ بیچارے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح قانون یا اَخلاق کی دُوسری کتابیں ہوتی ہیں اِسی طرح کی ایک کتاب قرآن شریف بھی ہے اور جیسے کسی قانونی یا اَخلاقی کتاب کو اُس کے نہ سمجھنے والے کا پڑھنا بالکل فضول اور لایعنی فعل ہے اِسی طرح اُن لوگوں کا تلاوت کرنا بھی ایک فعل عبث ہے جو قرآن کے معنی نہیں سمجھتے حالانکہ دُوسری کتابوں سے مختلف اللہ کی اِس مقدس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ پاک کی کتاب ہے اِس لیے اَدب اور عظمت کے ساتھ اِس کی صرف تلاوت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت و عبدیت کے تعلق کو ظاہر کرنے والا ایک عمل ہے اِس لیے یہ ایک مستقل عبادت ہے۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت کا مقصد سمجھناہی ہوتا توایک ایک نماز میں چار چار دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم نہ ہوتا کیونکہ معنی اور مطلب سمجھنے کے لیے توایک دفعہ کی تلاوت کافی ہوتی، اِس طرح کی غلط فہمیاں در اصل اُن لوگوں کو ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو دُنیا کے حاکموں کی طرح کا بس ایک حاکم سمجھتے ہیں اور اُس کی شانِ محبوبیت اور معبودیت سے ناآشنا ہیں یا یوں سمجھئے کہ جنہوں نے صرف دماغ سے خدا کو جانا اور مانا ہے اور دِل سے ماننا ابھی اُ نہیں پوری طرح حاصل نہیں ہوا ہے، اِس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ قرآن کا جو اَصل مقصد ہے یعنی ہدایت و نصیحت، وہ سمجھنے ہی پر موقوف ہے اِس لیے اِس کو سمجھنا اور تفکر و تدبر کے ساتھ اِس کی تلاوت کرنا یہ سعادت کا اعلیٰ درجہ اور اُونچامقام ہے ،یہی مسئلہ اِعتدال اور قولِ حق ہے ( وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ)