ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
کہا گیا کہ جب تک دولت لوگوں کے ہاتھوں میں رہے گی جب تک پبلک کے آدمی اپنی ملکیت جتاتے رہیں گے دولت کی تقسیم مساوی نہیں ہوسکتی، اب صرف ایک ہی علاج ہے کہ'' ملکیت ''ختم کردی جائے پیدا وار کے تمام ذرائع، کار خانے، مِل، فیکٹریاں سب'' اسٹیٹ'' کی ہوں، پیدوار اسٹیٹ کی ہو، بلڈنگیں ،مکانات کوٹھیاں اور باغات سب اسٹیٹ کی ہوں پھر اسٹیٹ کا کام یہ ہو کہ جنتا کا پیٹ بھرے، اُن کے کھانے پینے، رہنے سہنے کا اِنتظام کرے، ہر ایک بالغ کو مرد ہو یا عورت کام پر لگائے۔ تجویز مناسب تھی، جذبات کے موافق تھی، بالاتفاق منظور کی گئی، عقل کی کسوٹی پر رکھنے کی ضرورت کبھی نہیں سمجھی گئی، لیکن ابھی تجربہ شروع ہی ہوا تھا کہ عائلہ (فیملی) گر ہستی اور خاندان کا سوال سامنے آگیا۔ ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ یہ ممکن ہے کہ ملکیت ختم ہونے کے بعد کار کردگی اور کارگزاری میں اِضافہ ہو ؟ (الف) اِنسان کی فطرت یہ ہے کہ اُسے اپنے نفع سے محبت ہوتی ہے، وہ نفع کی خاطر بسا اَوقات کام زیادہ کرتا ہے لیکن جب زیادہ محنت کا پھل اُس کو نہیں بلکہ اسٹیٹ کو ملے گا تو کیا اسٹیٹ کی محبت اور اُس کی ترقی کا جذبہ اِس فطری محبت اور جذبہ کی جگہ لے سکے گا ؟ (ب) قابلیت کا مظاہرہ اور آگے بڑھنے کا شوق بھی اِسی جذبہ کی بناء پر ہوتا ہے لیکن خاتمہ ٔ ملکیت کے بعد جب یہ جذبہ ٹھنڈاپڑ جائے گا تو قابلیت کا مظاہرہ کیوں ہوگا اور آگے بڑھنے کے تصور میں کوئی شخص اپنی جان مصیبت میں کیوں ڈالے گا۔ (ج) ایک شخص محنت کر کے کماتا ہے وہ اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے بیوی بچوں کے اَندر اِحسان مندی کا جذبہ پیداہوتا ہے، وہ اِس کی بات مانتتے ہیں اِس سے گر ہستی اور خانگی نظام قائم ہوتاہے وہ اپنی بیوی بچوں کو خوش رکھنے کے لیے زیادہ کمانے کی کوشش کرتا ہے جس کے لیے زیادہ محنت کرتاہے اِس سے ملک کی پیدا وار اور وطن کی دولت میں اِضافہ ہوتا ہے، باپ کو دیکھ کر اَولاد میں بھی محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے لیکن اُس کی کمائی جب اُس کی اپنی نہیں بلکہ اسٹیٹ کی ہوگی اور اسٹیٹ پیٹ بھرائی کا اِنتظام کرے گی تو جذبات کا یہ تمام سلسلہ ختم ہوجائے گا۔