ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں اِستعمال کریں تو وہاں (آخرت میں) محروم رہ جائیں کیونکہ باری تعالیٰ کا اِرشاد ہے عُجِّلَتْ لَھُمْ طَیِّبَاتُھُمْ ١ یعنی جو مزیدار اور عمدہ چیزیں تھیںوہ تو دُنیاوی زندگی میں حاصل کر چکے اِس لیے اب وہ تمہیں نہیں ملیں گی۔اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتیں بلا شبہ جائز الاستعمال ہیں،اُن سے مستفید و متمتع ہونا کوئی بُری بات نہیں ہے مگرحد سے تجاوز کرنا اور نعمتوں کابے جا اِستعمال کرنا ہر گز درست نہیں ہے، اِسلام نے اِسراف وفضول خرچی سے سختی کے سا تھ منع کیا ہے۔ اِسلام نے جہاں فقراء و مساکین کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے فقر واِفلاس کا خدا کے سوا کسی سے گلہ و شکوہ نہ کریں صبرو ہمت سے کام لیں وہاں اُس نے اُمراء اور اہلِ ثروت کو یہ حکم دیا ہے کہ تم دولت کو بے جا صرف نہ کرو اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لو، اِسلام میں بخل (مال کو روکے رکھنا )اور اِسراف(بے جا خرچ کرنا ) دونوں ناجائز ہیں۔ گورنروں کے لیے ضابطہ : حضرت فاروقِ اعظم جس کو کوئی منصب اور عہدہ سپرد کرتے تو اُسے یہ ضرور نصیحت فرماتے کہ آرام طلب نہ بننا، عیش پسندی کی عادت نہ ڈالنا اور سادگی کو ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ ایک دفعہ آپ کو کسی گورنر کے بارے میں شکایت پہنچی کہ اُس نے اپنے دروازے پر پہرہ دار بٹھا رکھا ہے اور نرم و باریک کپڑے پہنتا ہے تو آپ نے اُسے فورًا طلب فرمایا اور دریافت فرمایا کہ کیا تم نے پہرہ داربٹھا رکھا ہے اور نرم کپڑے اِستعمال کرتے ہو ؟ اُنہوں نے اِقرار کیا کہ ہاں مجھ میں یہ خامیاں موجود ہیں، آپ نے اُنہیں معزول فرمایا اور اُنہیں بکریں چرانے کا حکم صادر فرمایا ! اُنہوں نے تامل کیا ، فرمایا کہ کیا تم اور تمہارے باپ دادا یہ کام نہیں کرتے تھے ؟ عرض کیا ضرور کرتے تھے مجھے بھی کوئی اِنکار نہیں مگر میرے دوست اور ساتھی میرا مذاق اُڑائیں گے اُس میں جو ذلت ہوگی اُس سے مجھے اِتنی کوفت ہوگی کہ آپ کا مجھے جان سے مار دینا اِس سے آسان ہے ! ! آپ نے پوچھا آئندہ تو ایسا نہیں کروگے ؟ عرض کیا کہ نہیں کروں گا، تب آپ نے اُنہیں معاف فرمادیا۔ ١ بخاری شریف کتاب المظالم والغضب رقم الحدیث ٢٤٦٨