ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
سوال یہ ہے کہ یہ علاج غلط ہے یا تشخیص غلط ہے ، طبیب نادان ہے یا تیما دار غلط کار، اِسلام کہتا ہے تشخیص غلط ہے ! طبیب ِنادان نے علامت کو مرض سمجھا ! ! نتیجہ یہ ہوا ! ! ! مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی دولت کی بہتات اصل مرض نہیں ہے، اصل مرض وہ ہے جس نے دولت میں بہتات پیدا کی جس کی وجہ سے چور بازاری اور سود کی رقم کو اُس نے شیرِ مادر سمجھا اور جب منسٹر ہو گیا تو رشوت کا بازار گرم کر دیا، ٹھیکیداروں اور کمرشل ایجنٹوں سے اپنا کمیشن مقرر کرایا ،وغیرہ وغیرہ۔یہ ہے اصل مرض یعنی دولت کی بڑھی ہوئی محبت ،کنجوسی اور حرص و طمع۔ تم سو شلزم کا شور مچا کر اُس کی دولت چھیننا چاہتے ہو، اُس پر بھاری ٹیکس لگاتے ہو کہ وہ جو کچھ کمائے تمہیں دے دے، روپے میں صرف دو آنے اپنے پاس رکھے چودہ آنے تمہارے حوالے کردے،تم قانون بنا کر بہت خوش ہوئے کہ سرمایہ داری ختم کردی، ایک تجوری کی رقم بہت سی تجوریوں میں پہنچا دی، سونے پر پابندی لگادی، اَفراطِ زر اور نفع اَندوزی کے راستے بند کردیے لیکن جب بجٹ بنایا گیا تو اَربوں کا خسارہ تھا اور غریبی کے دامن پہلے سے زیادہ پھیل گئے تھے، جنتا کی مصیبت اور بڑھ گئی تھی کیونکہ تمہارے قانون پر کہیں بھی ٹھیک طرح عمل نہیں ہو ا تھا۔ جو ساہو کار بلیک کا عادی تھا جس کو چوربازاری کی چکھی پڑ چکی تھی اُس نے بلیک اور چور بازاری کے اور راستے نکال لیے، اِنسپکٹر صاحبان دندناتے ہوئے پہنچے لیکن زر دیدم فولادخَرم ١ چاندی کے پاپوش ٢ نے تمام چوکڑی ٣ بھلادی، پہلے صرف سیٹھ جی بلیک کیا کرتے اَب اِنسپکٹر صاحبان بھی اُن کے مددگار ہوگئے، رفتہ رفتہ سیکریٹریٹ اور منسٹری کو بھی اپنی برادری میں شامل کر لیا ! ! ! یہ سو شلزم کی ترقی ہے یا بلیک اِزم کی ؟ ؟ ؟ اَصل مرض اگر دولت اور خزانہ تھا اور سیٹھ جی اُس کے مریض تھے تو سر کاری عملہ کو کیا ہو گیا یہ کیوں بیمار ہو گیا یہ تو سرمایہ دار نہیں تھا ! غورکرو اور سوچو ! ! اَصل مرض کیا ہے جس نے پورے سماج کو بیمار بنادیا تم ترقیاتی منصوبوں کی آدھی مسافت طے کر چکے ہو، نتیجہ سامنے ہے ! پندرہ سال بعد ١ میں نے سونا دیکھا اور فولاد کو خرید لیا۔ ٢ جوتا ٣ حواس باختہ ہونا ،ہوش نہ رہنا