ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
اچھا یہ سنگدلی دولت نے پیدا کی یا دولت اُن کے پاس اِس لیے جڑی کہ یہ سنگدل تھے، جب لوگ فاقوں سے مر رہے تھے تویہ غلہ کا بلیک کر رہے تھے، اِن کے ایک دوست نے اِن سے ایک گٹھا ١ خریدا تھا تو اُنہوں نے اُس سے بھی بلیک کی قیمت وصول کی تھی، اُن کو خبر تھی کہ دوست کا باپ بیمار ہے راشن کا آٹا اُسے نقصان دیتا ہے وہ ملاوٹ کا آٹا ہے بیمار باپ کے لیے خالص گیہوں کے آٹے کی ضرورت تھی، دو تین کیلو میں پر ہیزی کھانے کی ضرورت پوری ہو سکتی تھی مگر یہ ایک گٹھے سے کم دینے پر راضی نہیں ہوئے تھے اور یہ گٹھا بھی اُنہوں نے بڑا اِحسان رکھ کر دیا تھا اور اُس کے دوست نے مجبورًاخریدا تھا۔ مگر ہمارے سامنے ایسے بھی بہت سے دولت مند ہیں جن کا محل سرا بھوکوں ننگوں کا پناہ گاہ ہوتا ہے جن کی دولت سے بہت سے خاندانوں کے پیٹ پلتے ہیں، قومی کاموں میں آگے بڑ ھ کر حصہ لیتے ہیں بہت سے طلبہ اُن کے وظیفوں اور اِسکا لر شپ کی مدد سے تعلیمی ترقی کی اُونچی اُونچی منز لیں طے کرتے ہیں، اگر یہ سنگ دِلی دولت کی تاثیر ہے تو یہ اَثر یہاں کیوں نہیں ؟ سیاسی کھلاڑی آگے بڑھے اُنہوں نے دولت کے خلاف نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا، حکومتوں کو تہ و بالا کر دیا، فیکٹریوں پر قبضہ کیا، مزدوروں کو آزادی دی اُن کے حقوق فرض کیے اور اُن میں قانون کی قوت پیدا کردی، زمیندارہ ضبط کیا، تاجروں میں بڑے بڑے ٹیکس لگائے، ترقیاتی منصوبے بنائے اُن پر اَربوں روپیہ خرچ کیا مگر اِس غریب دُبلی پتلی عورت کی جھونپڑی جہاں تھی وہیں رہی۔ ترقیاتی منصوبوں نے سیٹھ صاحب کی دولت میں تو اِضافہ کر دیا، پہلے وہ فقط سیٹھ تھے اب منسٹر بھی ہوگئے مگر اُس غریب عورت اور اُس کے بھوکے بچوں کا دَلِدَّرْ دُور تو کیا ہوتا اُس کی غریبی اور بڑھ گئی، پہلے پچاس پیسے میں ایک وقت پیٹ بھر جاتا تھا اب ایک سو پچاس پیسوں میں بھی پیٹ نہیں بھرتا، مزدوری جتنی پہلے ملتی تھی اُتنی ہی اب مِل رہی ہے صرف پچیس پیسے بڑھے ہیں۔ ١ بورا ،بنڈل(Bundle)