ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
پھر دُوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایتوں کے پیش ِنظر ۔ ناقل )یہ واقعۂ معراج سن٥نبوی میں پیش آیا یعنی حضور ۖ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب ِمعراج پیش آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اِس واقعہ کے بعد ١٨سال تک آپ دُنیا میں تشریف فرمارہے لیکن اِن اَٹھارہ سال کے دَوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ ۖنے شب ِمعراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو یا اِس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو یا اِس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اِس رات میں شب ِقدر کی طرح جاگنا زیادہ اَجروثواب کا باعث ہے۔ نہ تو آپ کا ایسا کوئی اِرشاد ثابت ہے اور نہ آپ کے زمانے میں اِس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خودحضور ۖ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اِ س کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طورپر اِس کا اہتمام فرمایاپھر سرکارِ دوعالم ۖ کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد (تقریبًا) سوسال تک صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم دُنیا میں موجود رہے ، اِس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ٢٧رجب کو خاص اہتمام کرکے منایا ہولہٰذا جو چیز حضور اَقدس ۖ نے نہیں کی اور جو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہیں کی اُس کو دین کاحصہ قراردینا یا اُس کوسنت قراردینا یا اُس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (معاذاللہ) حضور ۖ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کون سی رات زیادہ فضیلت والی ہے یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اِس کو کروں گا تو اُس کے برابر کوئی اَحمق نہیں۔'' (اِصلاحی خطبات ج ١ ص ٤٨ تا ٥١) حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ