ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
وجہ یہ ہے کہ اِس میں ذرامزہ اور لذت آتی ہے اور ہماری قوم لذت اور مزہ کی خوگر ہے ، کوئی میلہ ٹھیلہ ہونا چاہیے اور کوئی حظِّ نفس (نفس کا مزہ )کا سامان ہونا چاہیے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ جناب ! پوریاں پک رہی ہیں، حلوہ پک رہا ہے اور اِدھر سے اُدھر جارہی ہیں اور اُدھر سے اِدھر آرہی ہیں اور ایک میلہ لگا ہوا ہے ، توچونکہ یہ بڑے مزے کاکام ہے ، اِس واسطے شیطان نے اِس میں مشغول کردیا کہ نماز پڑھو یا نہ پڑھو ، وہ کوئی ضروری نہیں مگر یہ کام ضرور ہونا چاہیے ۔ بھائی اِن چیزوں نے ہماری اُمت کو خرافات میں مبتلا کردیا ہے حقیقت روایات میں کھو گئی یہ اُمت خرافات میں کھو گئی اِس قسم کی چیزوں کو لازمی سمجھ لیا گیا اور حقیقی چیزیں پس ِپشت ڈال دی گئیں ، اِس کے بارے میں رفتہ رفتہ اپنے بھائیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اِس لیے کہ بہت سے لوگ صرف ناواقفیت کی وجہ سے کرتے ہیں ، اُن کے دِلوں میں کوئی عناد نہیں ہوتا لیکن دین سے واقف نہیں ،اِن بیچاروں کو اِس کے بارے میں پتہ نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عیدا لاضحی کے موقع پر قربانی ہوتی ہے اور گوشت اِدھر سے اُدھر جاتا ہے ،یہ بھی قربانی کی طرح کوئی ضروری چیز ہوگی اور قرآن وحدیث سے اِس کا بھی کوئی ثبوت ہوگا، اِس لیے ایسے لوگوں کو محبت ، پیار اور شفقت سے سمجھایا جائے اور ایسی تقریبات میں خود شریک ہونے سے پرہیز کیا جائے۔'' ( اِصلاحی خطبات ج ١ ص ٥٤ ، ٥٥ ) گزشتہ تفصیل سے دلائل کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ ٢٢رجب کے کونڈے کرنا شرعًا جائز نہیں اِن میں شرکت کرنا اور کسی طرح سے لوگوں کو ترغیب دینا بھی گناہ ہے۔ اگر یہی مال جو کونڈوں کی رسم میں خرچ کیا جاتا ہے کسی صحیح دینی مصرف میں لگایا جائے تو دُنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔